تحریر: جولیا کاسم
اسرائیل کی سوچی سمجھی لیکن مایوس کن جارحیت، ایران کا اسٹریٹجک ضبط اور زوردار جوابی کارروائیاں، اور خطے میں طاقت کا بدلتا توازن۔
اسرائیل نے ایران پر حملہ اور اس کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کی کئی برسوں پرانی دھمکی پر اس وقت عمل کیا جب تہران نے اسرائیلی جوہری تنصیبات کے حوالے سے انتہائی حساس معلومات کے بڑے پیمانے پر اخراج کا انکشاف کیا، جس سے اسرائیل کی انٹیلیجنس برتری کا تاثر زائل ہوا۔ تاہم ایران اس مقام کے لیے پہلے ہی تیار تھا۔ صہیونی ریاست کی نظر میں اب ہدف غزہ سے ایران منتقل ہو چکا ہے۔ اسرائیل اپنی طاقت کو سوچے سمجھے اور ناپے تلے اقدامات میں ظاہر کرتا ہے، جبکہ مزاحمت کی قوتیں رفتار اور وقت کا تعین اپنے ہاتھ میں رکھتی ہیں، اور اسرائیل کو اس کے اپنے ابتدائی "شاک اینڈ آ” سے باہر نکال کر اس کے پتے جلا رہی ہیں۔ جنگ کے چوتھے دن، ایران نے اب تک کے سب سے طاقتور جوابی حملے کیے، جو شدت اور وسعت دونوں میں اضافہ ظاہر کرتے ہیں۔
دوسری جانب امریکہ اس جنگ کو خطرناک حد تک بڑھانے کا ایک ایسا حربہ بنا رہا ہے جس کا مقصد ایران کو جوہری صلاحیتوں، ٹیکنالوجی اور دفاع سے محروم کرنا ہے۔
مذاکرات کا وعدہ—جو بظاہر پابندیوں میں نرمی کی صورت میں "اصلاح پسند” ایرانی حکومت کے سامنے رکھا گیا—اصل میں امریکہ اور اسرائیل کی چال تھی: ایران کو بے خبر کرنے کی سازش۔
2024 کے ستمبر میں لبنان پر اسرائیلی محاصرے کے آغاز میں، صہیونی ریاست نے مذاکرات کے جھوٹے وعدوں کی حکمتِ عملی اختیار کی، وہی حکمت عملی جو 27 ستمبر کو سید حسن نصراللہ کی شہادت سے قبل اپنائی گئی تھی۔
اس کے بعد، لبنان پر مکمل جنگ کے بعد، اسرائیل کی نظر ایران پر تھی، جبکہ شام کو تباہ کرنے کے لیے تکفیری عناصر کو متحرک کیا گیا تاکہ اسرائیل کے لیے فضائی راہ ہموار ہو سکے اور وہ ایران پر حملے کرے—یہی پتہ برسوں سے اسرائیل کے ہاتھ میں تھا۔
کچھ عرصہ تک یہ چال کامیاب رہی۔ مگر ایران نے حیرت انگیز حد تک صبر کا مظاہرہ کیا—کچھ ناقدین کے نزدیک حد سے زیادہ۔
"ٹائمز آف اسرائیل” نے اسرائیل اور امریکہ کے درمیان "پردے کے پیچھے تعاون” کی تفصیل بیان کی، جس کے بعد "دی یروشلم پوسٹ” نے مشترکہ فریب کاری پر فخر کیا۔
اسرائیل کی خفیہ کارروائیاں اس لیے ڈیزائن کی گئیں تاکہ امریکہ کو پردے کے پیچھے رکھا جائے، اور اس کے وسائل—جو خطے میں ڈیڑھ سالہ جنگ کے بعد تھک چکے ہیں—محفوظ رہیں۔ امریکہ چاہتا ہے کہ ایران کے ساتھ مذاکرات جاری رہیں اور ایسا تاثر دیا جائے کہ وہ طاقت کی پوزیشن میں ہے، حالانکہ اس پوزیشن سے وہ پہلے ہی محروم ہو چکا۔
مذاکرات کی میز پہلے ہی ایک فریب اور بے وقوفی کا میدان تھی۔ ٹرمپ کی 60 روزہ ڈیڈ لائن کا مقصد ان رعایتوں کا حصول تھا جو میدانِ جنگ میں مزاحمتی قوتوں سے حاصل نہ ہو سکیں اور ایران کو اس کے دفاعات سے دستبردار کرایا جا سکے۔
اسرائیل نے یمن کی مزاحمت کو بمباری اور غزہ کی مزاحمت کو دہشتگردانہ حملوں کے ذریعے دبانے کی کوشش کی، مگر وہ ناکام رہا۔ انصار اللہ کی کارروائیاں سمندر سے فضاء تک پھیل چکی ہیں، صہیونی ریاست کے ہوائی اڈے اور معیشت مفلوج ہو چکے ہیں، اور غزہ کی مزاحمت بھی اسرائیلی حملوں کے باوجود قائم ہے۔ ٹرمپ کی ڈیڈ لائن کے دوران، امریکہ اور اسرائیل دونوں مزاحمت کو دبانے یا ایران کو مجبور کرنے میں ناکام رہے۔
جبکہ امریکہ، یورپی یونین، اور برطانیہ نام نہاد مذمتی بیانات جاری کر رہے ہیں، درپردہ وہ اسرائیل کی مدد کے لیے تیار ہیں۔ خاص طور پر فرانس نے غزہ سے حماس کو ہٹانے کے عوض فلسطینی ریاست کو "تسلیم” کرنے کی مہم شروع کی۔
ایرانی رہبر بارہا امریکہ کے ساتھ براہ راست یا بالواسطہ مذاکرات کو نہ صرف بے سود بلکہ خطرناک قرار دیتے آئے ہیں۔ اسرائیل کے 13 جون کے حملے نے ان تمام خوش فہمیوں پر آخری کیل ٹھونک دی۔
ایران کی 13 جون کی رات کی جوابی کارروائیاں محض علامتی نہیں تھیں، بلکہ انہوں نے دشمن کو مادی اور عسکری لحاظ سے شدید نقصان پہنچایا۔ خَیبر شکن بیلسٹک میزائل اور حاج قاسم میزائل جیسے جدید ہتھیار سامنے آئے۔ اسرائیل کا اصل ہدف ایران کے فضائی دفاعی نظام کو کمزور کرنا تھا، مگر ایران نے 4 امریکی F-35 طیارے مار گرائے، جو پوری مغربی دنیا کے فضائی طاقت کے لیے بڑا دھچکا تھا۔
ایران نے امریکی و اسرائیلی دفاعی نظاموں، حتیٰ کہ THAAD تک، کو عبور کر لیا۔ عراق کی مزاحمتی قوتوں نے ابتدا میں اسرائیلی دفاعی نظام کو مشغول رکھا تاکہ ایران کے بیلسٹک میزائل اپنے اہداف تک باآسانی پہنچ سکیں۔ یہ سب ایران نے اپنے اسٹریٹجک ہتھیار استعمال کیے بغیر کیا۔
اسرائیل کی یہ کارروائی طاقت نہیں، بلکہ مایوسی کا مظہر تھی۔ 20 سالہ منصوبے کے بعد ایران پر حملہ نیتن یاہو کا "آخری کارآمد ہتھیار” تھا۔ پانچویں دن ایران صہیونی ریاست کی جنگی تحقیقاتی تنصیبات (جیسے ویزمین انسٹی ٹیوٹ)، توانائی کے انفرااسٹرکچر، اور تیل کے ذخائر کو نشانہ بنا رہا ہے—ایسا بدلہ جو ایران پر کیے گئے، اور شام، یمن، لبنان و دیگر پر کیے گئے اسرائیلی حملوں کا جواب ہے۔
ایران نے چالاکی سے ڈمی لانچرز کے ذریعے اسرائیل کو دھوکہ دیا—جن پر حملے کے بعد ثانوی دھماکے نہیں ہوئے—جیسے حزب اللہ پہاڑوں میں اصلی تنصیبات کو چھپا کر جعلی کو نمایاں کرتی ہے۔
اسرائیل کا ایران پر حملے سے گریز دراصل اس بات کا اعتراف تھا کہ وہ ایران کو باہر سے نہ تباہ کر سکتا ہے نہ فتح، اور صرف اندرونی تبدیلی کے ذریعے ہی کچھ کر سکتا ہے۔ مگر اس بار، صہیونی حملوں نے ایرانی قوم کو متحد کر دیا ہے۔
صہیونی ریاست کو اپنے مخالفین سے جو چیز ممتاز کرتی ہے وہ نہ دولت ہے، نہ ٹیکنالوجی، بلکہ اخلاقی برتری کا فقدان۔ گاڑیوں میں بم چھپانا جیسی کارروائیاں کمینگی اور بزدلی کا ثبوت ہیں، مہارت کا نہیں۔ زیادہ تر اسرائیلی کارروائیاں اندرونی تخریب کاری کے ذریعے کی گئیں، اور اب ایران کو موساد کے ایجنٹوں، خفیہ ڈرون ورکشاپس اور جاسوس نیٹ ورکس کو بے نقاب کرنے کا موقع ملا ہے۔ جیسے ہی ایران نے موساد سے منسلک عناصر کو گرفتار کرنا شروع کیا، اس کے فضائی دفاعی نظام نے زیادہ مؤثر اور تیز ردعمل دینا شروع کر دیا۔
ایران نہ کوئی محصور پٹی ہے، نہ اس کی زمینی، فضائی یا بحری حدود اسرائیل کے قبضے میں ہیں۔ اس کے پاس جوہری ہتھیار نہیں، نہ مغرب کی بے پناہ دولت، مگر رہبر انقلاب کی دانش، حکمت اور اخلاقی رہنمائی اس کی اصل طاقت ہے۔
ریجیم چینج اور رہنماؤں کی ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے اسرائیل نے 20 ماہ تک مزاحمت کو قیادت کے بحران میں ڈالنے کی کوشش کی، مگر الٹا اپنی ہی قیادت کے بحران کو بے نقاب کر بیٹھا۔
صہیونی آبادکار—ایرانی عوام کے برعکس—اب شدید خوف، گھبراہٹ اور مایوسی میں مبتلا ہیں، کیونکہ اب وہ جان چکے ہیں کہ وہ مزید محفوظ، خوشحال یا بے خوف نہیں رہے۔ وہ ساحلوں پر سیر یا نائٹ کلبوں کی عیش پرستی سے لطف اندوز نہیں ہو سکتے، جو کہ قبضے اور ظلم کی کمائی سے حاصل کی گئی تھی۔ ایک ایرانی کمانڈر نے "تسنیم نیوز” کو بتایا کہ صہیونیوں میں خوف کی سطح میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ایرانی عوام، اپنے تمام اختلافات اور سیاسی پس منظر کے باوجود، اپنی قوم اور خودمختاری کے دفاع کے لیے یکجا ہو چکے ہیں۔