مانیٹرنگ ڈیسک (مشرق نامہ)– یورپ کو اپنی لپیٹ میں لینے والی ریکارڈ توڑ گرمی کی لہر نے براعظم بھر میں متعدد ہلاکتوں، وسیع آتشزدگیوں اور بجلی کے تعطل جیسے بحرانوں کو جنم دیا ہے۔ ماہرین نے اس غیر معمولی صورتحال کو "خاموش قاتل” قرار دیا ہے۔
یہ شدید گرمی ایک مستقل ہیٹ ڈوم کے باعث پیدا ہوئی ہے، جس نے درجہ حرارت کو خطرناک حد تک بڑھا دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں صحت کے ہنگامی حالات، جنگلات میں آگ، اور بنیادی سہولیات کے نظام میں خلل پیدا ہو رہا ہے۔
جنوبی اور وسطی یورپ کے کئی ممالک گرمی سے ہونے والی اموات کی اطلاع دے رہے ہیں، جن میں اٹلی، اسپین، فرانس اور جرمنی نمایاں طور پر متاثر ہوئے ہیں۔
اسپین کے علاقے کاتالونیا میں جنگلات میں لگی آگ سے دو افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ آگ نے تقریباً 40 کلومیٹر کے رقبے پر محیط کھیتوں کو تباہ کر دیا ہے۔
فرانس میں بھی گرمی سے دو ہلاکتوں کی تصدیق کی گئی ہے، جب کہ سینکڑوں افراد گرمی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے باعث اسپتال میں داخل کیے گئے ہیں۔
متعدد علاقوں میں حکام نے خطرے کی سرخ وارننگ جاری کر دی ہے کیونکہ درجہ حرارت مسلسل خطرناک سطح پر برقرار ہے۔
اٹلی کے 18 شہروں، جن میں میلان اور روم جیسے بڑے شہر شامل ہیں، میں شدید گرمی کے باعث سرخ الرٹ جاری کیا گیا ہے۔ حکومت کو گرمی کے بعد ممکنہ طوفانوں کا سامنا کرنے کی بھی تیاری کرنی پڑ رہی ہے۔
گرمی کی یہ شدید لہر یورپ کے بنیادی ڈھانچے پر بھی دباؤ ڈال رہی ہے۔ وسطی اٹلی کے شہر فلورنس اور برگامو کے کچھ حصوں میں ایئر کنڈیشننگ کے بڑھتے استعمال کے باعث بجلی کی بندش کی اطلاعات ہیں۔
دیہی علاقوں میں کسان شدید نقصان کی شکایت کر رہے ہیں۔ فصلوں کے پھل جھلس گئے ہیں اور جانوروں پر گرمی کے اثرات کے سبب دودھ کی پیداوار میں واضح کمی آئی ہے۔
سوئٹزرلینڈ میں بھی جوہری بجلی گھروں کو مسائل کا سامنا ہے۔ بیزنو پاور پلانٹ کو دریاؤں کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے باعث اپنی پیداوار میں کمی کرنا پڑی ہے، کیونکہ ان پانیوں کو ری ایکٹرز کی ٹھنڈک کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
پورے براعظم میں گرمی سے پیدا ہونے والی متعدد آتشزدگیوں نے فائر بریگیڈ کو چوکنا کر دیا ہے۔ اسپین اور جرمنی میں آگ پر قابو پانے کے لیے فائر فائٹرز کو شدید گرم، خشک موسم اور بدلتی ہوئی ہواؤں کا سامنا ہے۔
جرمنی کی ریاستوں برانڈنبرگ اور سیکسونی میں 40 ڈگری سیلسیس سے زائد درجہ حرارت کے باعث نقل مکانی اور پانی کی فراہمی پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔
یونان اور ترکی میں بھی جنگلات کی آگ پر قابو پانے کے لیے ایمرجنسی سروسز مصروف عمل ہیں، جو پہلے ہی دباؤ کا شکار ہیں۔
ماہرینِ موسمیات نے اس گرمی کی لہر کو غیر معمولی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ موسمِ گرما کے آغاز میں ہی غیر متوقع طور پر شدید آ گئی ہے۔
حکام نے عوام کو یاد دہانی کرائی ہے کہ اگرچہ گرمی کی لہریں بظاہر طوفانوں یا سیلاب کی طرح ڈرامائی نہیں لگتیں، لیکن یہ اتنی ہی مہلک اور اب روز بروز عام ہوتی جا رہی ہیں۔
توقع ہے کہ ہفتے کے اختتام تک درجہ حرارت خطرناک حد پر برقرار رہے گا، اور بعض علاقوں میں یہ 40 ڈگری یا اس سے بھی تجاوز کر سکتا ہے۔
حالیہ مطالعات کے مطابق 2022 کی گرمی کی لہر – جو یورپ کی تاریخ کی گرم ترین تھی – 60,000 سے زائد ہلاکتوں کا سبب بنی تھی۔ سائنس دان خبردار کر رہے ہیں کہ اگر فوری طور پر ماحولیاتی اقدامات نہ کیے گئے تو رواں سال کے نتائج اس سے بھی زیادہ سنگین ہو سکتے ہیں۔