صنعا (مشرق نامہ)– یمن کے وزیر خارجہ و امورِ تارکین وطن، جمال عامر نے کہا ہے کہ یمن کی عسکری صلاحیتوں میں پیش رفت اور انقلابی قیادت، بالخصوص سید عبدالملک بدرالدین الحوثی، کے گرد عوامی یکجہتی قابل تحسین ہے۔
بدھ کے روز وزارتِ خارجہ کے سیاسی و قونصلر شعبوں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جمال عامر نے کہا کہ سفارتی محاذ کو بھی یمنی مسلح افواج کی طرح مضبوط اور واضح ہونا چاہیے۔
انہوں نے زور دیا کہ یمن کا سفارتی مشن اپنی جدوجہد جاری رکھے گا، تاکہ عالمی سطح پر یمن کے مؤقف اور غزہ کے فلسطینی عوام کی حمایت کو مؤثر انداز میں پیش کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ آنے والا مرحلہ نیم دلانہ رویے یا غیرجانب داری کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ یا تو قومی آزادی کے اس راستے پر چلا جائے جو غیر ملکی تسلط کو مسترد کرتا ہے، یا ان قوتوں کے ساتھ جا ملا جائے جنہوں نے اپنی قوم سے غداری کی اور علاقائی و عالمی سامراجی قوتوں کے کرائے کے ہتھیار بن چکے ہیں۔
جمال عامر نے زور دیا کہ موجودہ انقلابی مرحلہ کسی فریق کے لیے غیر واضح پوزیشن یا سمجھوتے کی گنجائش نہیں چھوڑتا۔
انہوں نے ایک بار پھر واضح کیا کہ صنعاء بلند آواز میں اعلان کرتا ہے کہ امن ہمارا اسٹریٹیجک انتخاب ہے، جنگ محض ایک استثناء ہے۔ تاہم، اگر کوئی جارحیت مسلط کی گئی تو ہم اس کا مقابلہ کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔
بحر احمر میں یمن کا مؤقف غیر مبہم اور اٹل ہے
بحر احمر کی صورتِ حال پر بات کرتے ہوئے جمال عامر نے کہا کہ صنعاء کا مؤقف دو ٹوک ہے، اس کی کوئی دوسری تعبیر ممکن نہیں۔
انہوں نے بین الاقوامی بحری راستوں—بحر احمر، باب المندب اور نہر سوئز—کی سلامتی و حفاظت کے لیے یمن کے پختہ عزم کا اعادہ کیا۔
انہوں نے واضح کیا کہ اسرائیلی جہازوں کی بندش کا فیصلہ مکمل طور پر غزہ پر جارحیت کے خاتمے اور انسانی امداد کی بلا رکاوٹ فراہمی سے مشروط ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ محض سیاسی نہیں بلکہ ایک انسانی، اخلاقی اور مذہبی ذمے داری ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب غزہ میں جاری جرائم پر عالمی اور علاقائی خاموشی چھائی ہوئی ہے۔
فلسطین کی مکمل حمایت اور عسکری اقدامات کا تسلسل
یمن کی جانب سے غزہ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار صرف زبانی نہیں بلکہ عملی اقدامات کی صورت میں بھی سامنے آیا ہے۔ یمنی افواج نے ہائپر سونک اور بیلسٹک میزائلوں کے ذریعے اسرائیلی اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا ہے، جن کے نتیجے میں تل ابیب کے بن گوریون ہوائی اڈے پر فضائی سرگرمیاں معطل ہوئیں، جب کہ اسرائیلی بحری جہازوں کو بحر احمر سے مقبوضہ فلسطین کے جنوبی ساحلی شہر اُم الرشراش (ایلات) کی جانب روانگی سے روک دیا گیا۔
حالیہ برسوں میں یمن نے جنگ زدہ دفاعی ریاست سے ایک ایسی مرکزی مزاحمتی قوت کا روپ اختیار کیا ہے جو علاقائی سطح پر سامراجی بالادستی کے خلاف صفِ اول میں کھڑی ہے۔ "محورِ مزاحمت”—جس میں ایران، حزب اللہ اور دیگر صہیونیت مخالف قوتیں شامل ہیں—کا فعال رکن ہونے کے ناطے یمن نے مربوط اور تزویراتی عسکری کارروائیوں کے ذریعے اپنی حیثیت کو نمایاں طور پر مستحکم کیا ہے۔
غزہ میں جاری نسل کشی کے بعد یمنی افواج نے نہ صرف یکجہتی کے بیانات دیے بلکہ عسکری سطح پر بھی براہِ راست اقدامات کیے۔ ان اقدامات میں مقبوضہ علاقوں میں حساس فوجی تنصیبات پر میزائل حملے اور بحر احمر میں اسرائیلی بحری نقل و حرکت کو مفلوج کرنے والی بحری کارروائیاں شامل ہیں۔