غزہ کی جبری بیدخلی کا منصوبہ امن معاہدوں کے خاتمے کا پیش خیمہ بن سکتا ہے
تحریر: عبدالباری عطوان
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پورے اعتماد کے ساتھ اردنی بادشاہ عبداللہ دوم اور مصری صدر عبدالفتاح السیسی کی جانب سے اُن کی درخواست مسترد کرنے کو نظرانداز کر دیا، جس میں ٹرمپ نے اِن دونوں ممالک سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ غزہ کے عوام کو اپنی سرزمین پر پناہ دینے کے لیے تیار ہو جائیں۔ ٹرمپ نے کہا: "وہ یہ کریں گے” اور بے گھر کیے گئے فلسطینیوں کو اپنے ملک میں قبول کریں گے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں ممالک کے پاس دو ہی راستے بچتے ہیں: یا تو موجودہ امریکی حکومت کے ساتھ تصادم، جو ممکنہ طور پر ایک غیر اعلانیہ جنگ کی شکل اختیار کر سکتا ہے، یا پھر مکمل اطاعت، جو ایک اور نکبہ (تباہی) کے مترادف ہوگی۔
ٹرمپ نے غزہ کی نسلی تطہیر کے لیے "clean out” (صفائی) کا لفظ استعمال کیا، حالانکہ یہاں بسنے والے 85 فیصد لوگ پہلے ہی جنوبی اور ساحلی فلسطین سے بے دخل کیے گئے تھے۔ انہیں دوبارہ یا تیسری مرتبہ اپنے گھروں سے نکال کر بے دخل کرنا، دراصل نیتن یاہو کے منصوبے پر عمل درآمد ہوگا۔ نیتن یاہو نے اپنی جنگ کا آغاز غزہ کے شمالی علاقوں کے تقریباً دو ملین فلسطینیوں کو جنوب کی طرف دھکیل کر کیا، تاکہ انہیں بالآخر مصر کی سرحد کے پار بھیج دیا جائے۔ اگر فلسطینی عوام اور مصری فوج نے 15 ماہ قبل مزاحمت نہ کی ہوتی، تو یہ لوگ اب تک سینا کے علاقے یامیت میں خیموں کے شہر میں رہ رہے ہوتے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اس منصوبے کی مکمل حمایت کی تھی اور کچھ خلیجی ممالک سے اس کے لیے فنڈنگ کی یقین دہانی بھی لے لی تھی۔
مصری عوام، فوج اور سیاسی قیادت ایک ہی چیز پر متفق ہیں: فلسطینی کاز کی حمایت اور کسی بھی ایسے جبری نقل مکانی کے منصوبے کو مسترد کرنا جو اس کاز کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اردن کی صورتِ حال بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جب مصری صدر انور سادات نے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے ذریعے فلسطینیوں کے حقوق کو نظرانداز کیا تھا، تو انہیں فوجی پریڈ کے دوران اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔
ٹرمپ کا سب سے طاقتور ہتھیار مالی امداد کی کٹوتی کی دھمکی ہے، یعنی اگر مصر اور اردن نے غزہ کی جبری نقل مکانی کی مخالفت جاری رکھی، تو وہ ان دونوں ممالک کی امداد روک دیں گے۔ لیکن اس کے نتائج تباہ کن ہو سکتے ہیں: مشرقِ وسطیٰ میں مزید عدم استحکام، مسلح تنازعات میں شدت، امریکی فوجی اڈوں پر حملے، اور موجودہ امن معاہدوں کا خاتمہ۔
ٹرمپ اپنی پالیسیوں میں ہر امریکی صدر سے زیادہ صیہونی توسیع پسند ایجنڈے کے حامی ہیں۔ وہ مشرقِ وسطیٰ کو ایک رئیل اسٹیٹ ڈیلر کی نظر سے دیکھتے ہیں، اسی لیے انہوں نے اپنی "ڈیل آف دی سینچری” میں اسرائیل کو مزید عرب زمینوں کے الحاق کی کھلی چھوٹ دینے کی کوشش کی – جس کا آغاز مقبوضہ گولان ہائٹس اور مشرقی یروشلم سے ہوا، اور یہ سلسلہ مغربی کنارے، شام، لبنان، اردن اور پھر خالی کیے گئے غزہ تک پھیلنے کا امکان ہے۔ یہ اتفاق نہیں کہ ٹرمپ نے مشہور صیہونی رئیل اسٹیٹ تاجر اور وکیل اسٹیو وِٹکوف کو مشرقِ وسطیٰ کا خصوصی ایلچی مقرر کیا، اور ان کی پہلی ذمہ داری غزہ جا کر "مال” کا معائنہ کرنا تھی – تاکہ اسرائیلی انخلا کے بعد یہ زمین ہتھیانے کا منصوبہ مکمل کیا جا سکے۔
بااثر امریکی تجزیہ کار تھامس فریڈمین نے اپنے تازہ ترین کالم میں اِس ڈیل کے کچھ خدوخال بیان کیے ہیں۔ انہوں نے تجویز دی کہ غزہ کو مغربی کنارے کی طرح دو حصوں میں تقسیم کیا جائے: ایک علاقہ (Area A) جو 80 فیصد رقبے پر مشتمل ہوگا اور فلسطینی و بین الاقوامی کنٹرول میں ہوگا، اور دوسرا علاقہ (Area B) جو شمال میں اسرائیل کے عسکری کنٹرول میں رہے گا، جب تک کہ اسرائیل کو اپنی سرحدوں کی مکمل سیکیورٹی کی یقین دہانی نہ ہو جائے۔ حتمی منصوبہ یہ ہوگا کہ سلام فیاض کی سربراہی میں ایک محدود اختیارات کی حامل فلسطینی اتھارٹی قائم کی جائے، جو مغربی کنارے اور غزہ کے بچے کھچے حصے کا انتظام سنبھالے گی۔
یہ سوچ ممکنہ طور پر ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی کا حصہ ہے۔ غزہ کے تیل و گیس کے ذخائر اور سیاحتی منصوبے زیادہ تر شمالی علاقوں میں واقع ہیں، اسی لیے نیتن یاہو نے پچھلے چار ماہ سے شمالی غزہ کو خالی کرانے پر زور دیا ہے۔ جبالیا، بیت لاہیا اور بیت حانون جیسے علاقوں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا، تاکہ وہاں کے 70 فیصد سے زیادہ باشندے بے دخل ہو جائیں۔ لیکن بالآخر نیتن یاہو کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، اور اسرائیلی فوج کو فلسطینی مزاحمت کے ہاتھوں بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ یہ اتفاق نہیں تھا کہ اسرائیل نے اپنے ایک مغوی فوجی کو جبالیا کے کھنڈرات میں واپس کیا۔
اگر مصر اور اردن ٹرمپ کے منصوبے کو مسترد کرتے ہیں، تو اسرائیل جنگ بندی کو ختم کر سکتا ہے اور غزہ یا شاید لبنان پر دوبارہ حملہ کر سکتا ہے – اور اسے ٹرمپ انتظامیہ کی مکمل حمایت حاصل ہوگی۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے پہلے ہی اشارہ دے دیا تھا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ جنگ بندی زیادہ دیر چل سکے گی۔
اگر مصر اور اردن کی قیادتیں اپنی مزاحمت جاری رکھتی ہیں، تو کیمپ ڈیوڈ اور وادی عربہ معاہدے منسوخ ہو سکتے ہیں، جس سے یہ دونوں "فرنٹ لائن ریاستیں” ان زنجیروں اور شرمندگی سے آزاد ہو جائیں گی، جو اِن پر مسلط کی گئی تھیں۔ یہ الاقصیٰ طوفان کی ایک بڑی کامیابی ہوگی: خطے کو دوبارہ صیہونی منصوبے اور اس کے مغربی حمایتیوں کے خلاف مزاحمت کی پہلی منزل پر واپس لانا۔
نوٹ:۔ یہ مضمون مصنف کی ذاتی رائے کی عکاسی کرتا ہے، ضروری نہیں کہ یہ Danishgaah کے مؤقف کی نمائندگی کرے۔