پیر, جولائی 7, 2025
ہومنقطہ نظرکس طرح جنرل امیر علی حاجی زادہ نے ایران کو میزائل اور...

کس طرح جنرل امیر علی حاجی زادہ نے ایران کو میزائل اور ڈرون طاقت میں بدلا؟
ک

تحریر: ایوان کیسک

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی (IRGC) کی ایرو اسپیس فورس کے 16 سالہ کمانڈر، میجر جنرل امیر علی حاجی زادہ، جنہوں نے ایران کو عالمی میزائل اور ڈرون طاقت میں تبدیل کیا، صیہونی حکومت کی دہشت گردی میں پہلے ہی روز شہید کر دیے گئے، جب اسرائیل کی ناکام جارحیت کا آغاز ہوا۔

اکتوبر 2009 سے 13 جون 2025 میں اپنی شہادت تک، جنرل حاجی زادہ نے سپاہ کی ایرو اسپیس فورس کی قیادت کی اور ایران کے بیلسٹک میزائل اور ڈرون پروگرامز کو قومی دفاع کی اسٹریٹجک بنیادوں تک پہنچا دیا۔

خودانحصاری، جدت اور اسٹریٹجک گہرائی کے سخت حامی، جنرل حاجی زادہ نے جدید میزائل نظاموں کی نگرانی کی، جن میں درست نشانے کی صلاحیت اور 2000 کلومیٹر تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل شامل ہیں، جو دشمنوں خصوصاً صیہونی حکومت کو روکنے کے لیے تیار کیے گئے۔

قم میں واقع حضرت معصومہؑ کے روضے کی نگرانی کرنے والے سی سی ٹی وی کیمروں نے ان کی آخری لمحوں کو محفوظ کیا: وہ چند محافظوں کے ہمراہ خاموشی سے زیارت کے لیے آئے، مقدس احاطے میں چہل قدمی کی، مداحوں کے ساتھ تصاویر بنوائیں اور پھر دارالحکومت تہران کی جانب روانہ ہو گئے۔

چند گھنٹوں بعد، 13 جون کو اسرائیلی حملے نے سپاہ کے ہیڈکوارٹر کو نشانہ بنایا، جس میں وہ اور کئی اعلیٰ فوجی افسران شہید ہو گئے۔

سپاہی سے کمانڈر تک

1962 میں تہران میں پیدا ہونے والے حاجی زادہ کا تعلق قزوین کے خرم دشت یا مازندران کے امیرکلا سے تھا — مختلف ذرائع میں اختلاف پایا جاتا ہے۔

اسلامی انقلاب کے بعد 19 برس کی عمر میں انہوں نے سپاہ میں شمولیت اختیار کی۔ ان کی پہلی تعیناتی صوبہ ایلام کے مشرقی حصے میں ہوئی، جہاں انہوں نے علیحدگی پسند گروہوں کے خلاف شدید جھڑپوں میں حصہ لیا۔

1980 میں مسلط کردہ جنگ کے آغاز پر وہ جنوبی خوزستان بھیجے گئے اور سوسنگرد، خرمشہر اور ہوویظہ میں پیچیدہ جنگی کارروائیوں میں شامل رہے۔

1984 میں، جب سپاہ نے میزائل کمان قائم کرنے کا فیصلہ کیا، جنرل حسن طہرانی مقدم کی قیادت میں توپ خانے کے 13 اہلکار تربیت کے لیے شام روانہ ہوئے۔ ان کی غیر موجودگی کے دوران، حاجی زادہ، جو اس وقت توپ خانے کے افسر تھے، نے "حدید” میزائل بریگیڈ کی عملی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ بعد ازاں وہ آپریشن والفجر 8 (1986)، کربلا 4 اور 5 میں شریک ہوئے۔

بعد میں انہوں نے سپاہ کی میزائل یونٹس کی قیادت سنبھالی اور میزائل آپریشنز کمانڈ کے انچارج مقرر ہوئے۔ 1990 کی دہائی میں انہیں سپاہ کی فضائیہ کے لڑاکا انجینئرنگ ڈویژن کا سربراہ بنایا گیا۔

اسی دور میں ایران نے زیر زمین میزائل شہر بنانا شروع کیے، جس کا تجربہ بعد میں تہران میٹرو — خطے کا سب سے وسیع ریل نیٹ ورک — بنانے میں بھی کام آیا۔

صفر سے آغاز

2021 کے ایک انٹرویو میں جنرل حاجی زادہ نے بتایا کہ رہبر انقلاب آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے سپاہ کو اسلحے کی تیاری میں خودکفالت حاصل کرنے کی ہدایت دی تھی۔

ابتدائی طور پر ان کے پاس کوئی واضح سمت نہ تھی۔ جب مغربی اور مشرقی طاقتیں فضائیہ پر توجہ دے رہی تھیں، تو حاجی زادہ نے محسوس کیا کہ ایران جیٹ فائٹر کی دو نسلیں پیچھے رہے گا، اس لیے توجہ بیلسٹک میزائلوں پر مرکوز کی گئی — جو زیادہ قابل عمل اور دور دراز دشمن اڈوں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔

شہاب میزائل پروگرام کے ابتدائی دنوں میں درستگی ثانوی حیثیت رکھتی تھی۔ اس وقت "سرکلر ایرر پاسیبل” (CEP) سیکڑوں میٹر یا بعض اوقات کئی کلومیٹر تک ہوتا تھا۔ ایران نے 1984 میں پہلی بار سوویت اسکڈ میزائل حاصل کیے، جن میں سے دو تحقیق اور ریورس انجینیئرنگ کے لیے مختص کیے گئے۔

کچھ سپاہی اسے وسائل کا ضیاع سمجھتے تھے، مگر رہبر انقلاب نے خودانحصاری پر زور دیا۔ برسوں بعد ایران کے پہلے مقامی میزائل کارخانے اسی سوچ کی پیداوار بنے۔

سوویت یونین کے انہدام نے غیر متوقع فائدہ پہنچایا: جو میزائل شمالی کوریا سے 25 لاکھ ڈالر میں خریدے جاتے تھے، وہ اب 5 لاکھ میں دستیاب تھے اور لانچ وہیکلز صرف 1 لاکھ میں۔

"میزائل کمپلیکس میں کوئی بھی اس خریداری کے خلاف نہیں تھا، سب کہتے تھے فوراً خریدو،” جنرل حاجی زادہ نے یاد کیا، "بس ایک شخص مخالف تھا — رہبر انقلاب۔”

رہبر نے خبردار کیا کہ بیرونی ہتھیاروں پر انحصار داخلی اختراع کو ختم کر دے گا۔ حاجی زادہ نے اس احتیاط کو ایران کی تیز رفتار پیش رفت کی کنجی قرار دیا۔

انہوں نے واضح کیا کہ یہی فیصلہ بعد کے برسوں میں نئی میزائل اقسام کی ترقی اور جلدی نتائج کے لیے نہایت اہم ثابت ہوا۔

2003 میں جب بریگیڈیئر جنرل احمد کاظمی نے ایرو اسپیس فورس کی قیادت سنبھالی تو حاجی زادہ کو فضائی دفاع کا کمانڈر مقرر کیا گیا۔

اس وقت ایران کے پاس اپنا کوئی فضائی دفاعی نظام نہ تھا، اور امریکہ کی جانب سے خطرات کے پیش نظر روس نے "بوک” میزائل دینے کی پیشکش کی۔

ایک بار پھر، رہبر انقلاب اور حاجی زادہ نے مقامی نظام تیار کرنے پر زور دیا، جس کے نتیجے میں بعد کے برسوں میں "رعد”، "طبس” اور "سوم خرداد” جیسے نظام سامنے آئے۔

انہوں نے پابندیوں کے اثرات کو مثبت قرار ديتے ہوئے کہا کہ
پابندیاں ہمارے لیے برکت لے کر آئیں۔ اگر ہم غیر ملکی ساز و سامان پر نظریں رکھیں تو ہمیشہ محتاج رہیں گے۔ کورونا کے دوران ہم نے اپنی میڈیکل کمیونٹی کی قربانی اور قوم کی عظمت دیکھی۔

"ہم نے ان پابندیوں کو مواقع میں بدلا۔ آج ہم ڈرون، میزائل، فضائی دفاع اور ان شاء اللہ خلا میں بھی دنیا میں بلند مقام پر پہنچ رہے ہیں،” انہوں نے کہا۔

ایرو اسپیس فورس کے کمانڈر

2009 میں جنرل حاجی زادہ نے جنرل حسین سلامی کی جگہ IRGC ایرو اسپیس فورس کی کمان سنبھالی۔ یہ ترقی ان کی شاندار کارکردگی کا اعتراف تھی۔

اپنے پہلے ہی سال میں انہوں نے امریکی پالیسیوں کو سخت الفاظ میں تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے فرمایا:

ان کے دو بنیادی مقاصد ہیں؛ ایک، اپنے جنگی ساز و سامان کو فروخت کر کے اپنی فیکٹریوں کو کساد بازاری سے نکالنا۔ دوسرے الفاظ میں، انہیں عرب ممالک سے پیسے چاہییں۔ کبھی وہ جنگ چھیڑتے ہیں اور کبھی دوطرفہ مسائل کو اچھالتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ
کبھی وہ ایرانوفوبیا کا پروپیگنڈا کرتے ہیں جب انہیں خطے میں کوئی جنگ کا موضوع نہیں ملتا، اور ان کی یہ چال اکثر مؤثر ثابت ہوتی ہے، جس پر خطے کے ممالک فوراً جا کر ان سے مہنگے دفاعی معاہدے کر لیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دشمن ماضی میں اسلامی جمہوریہ پر حملہ کرنے کے موقع کی تلاش میں رہا، لیکن اب ایسا امکان ختم ہو چکا ہے، اگرچہ وہ اب بھی باز نہیں آئے۔

"جب تک ملک کے اندر اتحاد قائم رہے گا، اور پیارا عوام کام میں مصروف اور رہبر معظم کی اطاعت میں رہے گا، یقین رکھیں کہ کوئی طاقت یا پابندی ہمیں زیر نہیں کر سکتی،” انہوں نے کہا۔

اسی سال ایران نے سفیر راکٹ کے ذریعے "امید” سیٹلائٹ لانچ کیا، جو ایران کے خلائی کلب میں داخلے کا اعلان تھا اور بیلسٹک ٹیکنالوجی کے دوہری استعمال کا نتیجہ تھا۔

جنرل حاجی زادہ کا ماننا تھا کہ ایران کو مقامی خلائی ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے کیونکہ وہ پابندیوں کے زیرِ اثر ہے اور یہ ٹیکنالوجی دفاعی اور سویلین دونوں میدانوں میں ضروری ہے۔

اپنے 16 سالہ دورِ قیادت میں وہ عراق، شام، مقبوضہ فلسطین اور خلیج فارس میں کئی اہم میزائل آپریشنز کی منصوبہ بندی اور نگرانی کرتے رہے۔

شام کی جنگ کے دوران انہوں نے شہید جنرل قاسم سلیمانی سے دریافت کیا کہ میزائلوں کا زیادہ استعمال کیوں نہیں ہو رہا۔ جنرل سلیمانی نے جواب دیا:
"آپ کے میزائل طویل فاصلے کے لیے ہیں، ہمیں ایسے میزائل چاہییں جن کی رینج صرف 10 کلومیٹر ہو۔”

چھ ماہ کی محنت کے بعد وزارت دفاع کے تعاون سے IRGC نے 23 کلومیٹر رینج کے میزائل تیار کیے، جو جنگ کے آخری مرحلے میں مؤثر ثابت ہوئے۔

ڈرون بمبارز نے اسمارٹ بموں کے ذریعے داعش کے خلاف شام میں 700 جنگی کارروائیاں کیں، جن میں انہوں نے ٹینک، بکتر بند گاڑیاں، خودکش بمبار گاڑیاں اور توپ خانوں کو نشانہ بنایا، جس سے میدانِ جنگ کا توازن مزاحمتی محاذ کے حق میں بدل گیا۔

2017 میں انہوں نے ایرانی پارلیمنٹ اور امام خمینی کے مزار پر دہشت گرد حملے کے جواب میں داعش کے اہداف پر جوابی میزائل حملوں کی نگرانی کی، جس سے ایران کی دفاعی صلاحیتوں کا مظاہرہ ہوا۔

دو سال بعد انہوں نے امریکی گلوبل ہاک ڈرون مار گرانے کا حکم دیا، جو ایران کے ایئر ڈیفنس کی خودکفالت کا بڑا ثبوت تھا۔

2020 میں انہوں نے امریکی صدر ٹرمپ کے حکم پر شہید قاسم سلیمانی کے قتل کے جواب میں عراق میں "عین الاسد” ایئربیس پر بیلسٹک میزائل حملے کی ہدایت دی۔

2024 میں انہوں نے "وعدہ صادق 1” اور "وعدہ صادق 2” کی قیادت کی، جو اسرائیلی جارحیت کے جواب میں صہیونی حکومت پر بڑے پیمانے کے میزائل اور ڈرون حملے تھے، جن میں شامی قونصل خانے پر حملہ اور مزاحمتی کمانڈروں کی شہادت شامل تھی۔

ان عظیم کارناموں پر رہبر معظم نے انہیں نشان فتح عطا کیا، جو ایران کا اعلیٰ ترین فوجی اعزاز ہے۔

2023 کے آخر میں انہوں نے غزہ کی مزاحمت کی مدد پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کچھ عرصہ قبل تک ان کا واحد دفاع پتھر تھے۔ آج وہ راکٹوں اور جدید صلاحیتوں سے اپنا دفاع کر رہے ہیں۔

بلندیوں پر ایران

جنرل حاجی زادہ کی قیادت میں ایران کا بیلسٹک میزائل ذخیرہ مکمل طور پر تبدیل ہو چکا ہے: 2000 کی دہائی کے آخر کے ابتدائی شہاب میزائلوں سے لے کر 2020 کی دہائی کے فتح ہائپر سونک میزائلوں تک۔

اسی دور میں ایران نے جدید دیسی ریڈار، ایئر ڈیفنس سسٹمز، اعلیٰ درجے کے ڈرونز اور جدید "لوئٹرنگ” ہتھیاروں کے بیڑے تیار کیے۔

ابتدائی سالوں میں ایران نے مائع ایندھن والے شہاب میزائلوں سے ٹھوس ایندھن والے سَجّیل میزائلوں کی طرف قدم بڑھایا، جو تیز تر لانچ کی تیاری کی صلاحیت رکھتے تھے۔

2000 کی دہائی کے آخر میں متعارف ہونے والے درمیانے فاصلے کے بیلسٹک میزائل جیسے غدیر-110، فجر-3، عاشورا اور سَجّیل میں ایندھن کی بہتری، مختصر تیاری، اور درستگی آئی، مگر یہ نظام اب بھی بھاری اور مہنگے تھے۔

2010 کی دہائی میں فتح-110 جیسے چھوٹے فاصلے والے میزائلوں کے بہتر ورژنز سامنے آئے:

فتح-313: 500 کلومیٹر

ذوالفقار: 700 کلومیٹر

دزفول: 1,000 کلومیٹر

خیبر شکن: 1,450 کلومیٹر

یہ جدید اور چھوٹے میزائل زیادہ موبائل، تیزی سے لانچ ہونے والے، زیادہ چُست اور دشمن کے ایئر ڈیفنس کے لیے ناقابلِ گرفت تھے، اور ان کی درستگی بھی اعلیٰ تھی۔

انہیں وسیع پیمانے پر تیار کرنا بھی آسان تھا، اور ایران پہلے ہی زیرِ زمین اڈوں سے ان کی بڑی تعداد کے ویڈیوز جاری کر چکا ہے۔

2015 میں جنرل حاجی زادہ کی موجودگی میں پہلی بار ایران کا "زیرِ زمین میزائل شہر” منظرِ عام پر آیا، جس میں صرف ایرانی نشریاتی ادارے (IRIB) کو شرکت کی اجازت دی گئی۔


"ہمارے گرد تمام ممالک غیر محفوظ ہیں، مگر ہمارا ملک استحکام کی بلند ترین سطح پر ہے۔ یہ نتیجہ ہے ہماری مسلح افواج، سپاہ، بسیج، فوج اور پولیس کی شبانہ روز محنت کا۔” انہوں نے فخر سے کہا

انہوں نے مزید کہا کہ ایرانی عوام کو اس پر اعتماد ہونا چاہیے، کیونکہ ملک کے بہت کم شہر یا صوبے ایسے ہیں جہاں کم از کم ایک میزائل بیس نہ ہو۔

"جو کچھ آپ دیکھ رہے ہیں، وہ پانی میں تیرتی ہوئی برفانی چٹان کی مانند ہے، جس کا بیشتر حصہ چھپا ہوا ہے… مختلف فاصلے کے میزائل لانچرز پر نصب ہیں، تیار حالت میں، اور انگلیاں ٹریگر پر ہیں۔ ہماری IRGC مکمل تیار ہے، اور ہم رہبر معظم کے حکم کے منتظر ہیں۔”

2024 میں انہوں نے مزید بتایا کہ ایران کے میزائل شہر 500 میٹر زیرِ زمین واقع ہیں، لہٰذا اگر دشمن انہیں تلاش بھی کر لے تو وہ ان سے نبرد آزما نہیں ہو سکتا۔

ایران کا بیلسٹک میزائل ذخیرہ اکثر "مغرب ایشیا کا سب سے بڑا” قرار دیا جاتا ہے، مگر اصل میں مختصر اور درمیانے فاصلے والے میزائلوں کی تعداد کے لحاظ سے یہ دنیا کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔

چین، جسے دنیا کی سب سے بڑی میزائل طاقت سمجھا جاتا ہے، اس کے پاس تقریباً 40 میزائل بریگیڈز اور 2,300 سے 2,400 بیلسٹک میزائل (جن میں بین البراعظمی میزائل بھی شامل ہیں) ہیں۔

چینی میزائل درست نشانے کے لیے نہیں بلکہ اسٹریٹجک جوہری ذخیرے کے لیے بنائے گئے ہیں، جبکہ ایران کے میزائل درستگی کے لحاظ سے نمایاں ہیں۔

مغربی محتاط تخمینوں کے مطابق ایران کے پاس 3,000 میزائل ہیں، جبکہ ایرانی حکام کے بیانات کے مطابق یہ تعداد 20,000 کے قریب ہے اور مسلسل بڑھ رہی ہے.

مقبول مضامین

مقبول مضامین