تحریر: ایلکس کوزل رائٹ
2025 کے ابتدائی چھ ماہ امریکی ڈالر کے لیے 1973 کے بعد بدترین ثابت ہوئے ہیں، جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی غیر متوقع معاشی پالیسیوں نے عالمی سرمایہ کاروں کو ڈالر فروخت کرنے پر مجبور کر دیا — جس سے اس کرنسی کی “محفوظ اثاثہ” کی حیثیت کو سنگین خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
چھ بڑی عالمی کرنسیوں کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قدر کو ناپنے والا “ڈالر انڈیکس” سال کے پہلے نصف میں 10.8 فیصد گر گیا۔
ٹرمپ کی غیر یقینی تجارتی پالیسی، فیڈرل ریزرو کی خودمختاری پر حملے، اور ان کا نیا ٹیکس بل — جسے وہ “ون بِگ بیوٹی فل بل” کہتے ہیں — عالمی منڈیوں میں امریکی مالیاتی ساکھ پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ یہ قانون آئندہ دہائی میں امریکی قرضے میں کھربوں ڈالر کا اضافہ کرے گا، جس سے واشنگٹن کی قرض ادائیگی کی صلاحیت پر خدشات پیدا ہوئے ہیں۔
ادھر، مرکزی بینکوں کی جانب سے ڈالر اثاثوں کی قدر میں کمی کے خدشے کے پیش نظر سونے کی خریداری میں اضافہ ہوا ہے، جس نے سونے کی قیمت کو ریکارڈ سطح پر پہنچا دیا۔
ڈالر کے ساتھ کیا ہوا؟
2 اپریل کو، ٹرمپ انتظامیہ نے دنیا کے بیشتر ممالک سے درآمدات پر نئے ٹیرف کا اعلان کیا، جس سے امریکی معیشت پر اعتماد متزلزل ہوا اور مالیاتی منڈیوں میں بھونچال آ گیا۔
ٹرمپ کے الفاظ میں “یوم آزادی” کے بعد صرف تین دن میں امریکی اسٹاک انڈیکس S&P 500 سے پانچ ٹریلین ڈالر کی مارکیٹ ویلیو غائب ہو گئی۔ امریکی سرکاری بانڈز کی فروخت بھی بڑھ گئی، جس سے ان کی قیمت گری اور حکومت کے قرض لینے کی لاگت بڑھ گئی۔
7 دن بعد، 9 اپریل کو، ٹرمپ نے چین کے علاوہ دیگر ممالک پر ٹیرف عارضی طور پر روک دیے۔ اگرچہ چین کے ساتھ تجارتی کشیدگی میں کچھ کمی آئی ہے، لیکن سرمایہ کار امریکی اثاثوں سے بدستور محتاط ہیں۔
اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم (OECD) نے حال ہی میں امریکہ کی شرح نمو کا تخمینہ 2.2 فیصد سے کم کر کے 1.6 فیصد کر دیا، حالانکہ افراطِ زر میں کمی آئی ہے۔
ٹیکس بل اور قرض میں اضافہ
ریپبلکن قیادت 4 جولائی سے قبل ٹرمپ کے مجوزہ “ون بِگ بیوٹی فل بل” کو کانگریس سے منظور کروانے کی کوشش میں ہے، جو 2017 کے ٹیکس کٹوتیوں کو وسعت دے گا، سماجی اخراجات میں کمی کرے گا اور قرض لینے کی حد میں اضافہ کرے گا۔
کانگریس کی غیر جانبدار بجٹ کمیٹی کے مطابق، یہ بل 2034 تک وفاقی قرض میں 3.3 ٹریلین ڈالر کا اضافہ کرے گا، جس سے قرض کا حجم جی ڈی پی کے مقابلے میں موجودہ 124 فیصد سے مزید بڑھ جائے گا۔ سالانہ بجٹ خسارہ بھی 6.4 فیصد سے بڑھ کر 6.9 فیصد تک پہنچ سکتا ہے۔
ٹرمپ کی جانب سے اخراجات میں کمی کی کوششیں، بشمول ایلون مسک کی قیادت میں قائم “محکمہ حکومتی کارکردگی”، متوقع نتائج نہیں دے سکیں۔ جبکہ ٹیرف سے کچھ آمدن ہوئی ہے، اس کا بوجھ امریکی صارفین نے مہنگے درآمدی سامان کی صورت میں اٹھایا ہے۔
مزید برآں، مئی میں موڈی کی جانب سے امریکی کریڈٹ ریٹنگ میں کمی نے امریکی معیشت کی ساکھ کو مزید متاثر کیا، جس سے ڈالر کی طلب مزید گری۔
کیا امریکہ سرمایہ کاری کے لیے کم پرکشش بن رہا ہے؟
عالمی مالیاتی نظام میں امریکی ڈالر کی مرکزی حیثیت طویل عرصے سے مسلمہ رہی ہے۔ مگر یہ حیثیت امریکی معیشت، مالیاتی شفافیت، اور قانونی نظام پر اعتماد سے جڑی ہوئی ہے — جسے ٹرمپ کی پالیسیاں نقصان پہنچا رہی ہیں۔
بینک جے سفرا سراسین کے چیف اکانومسٹ کارسٹن جونئیس کہتے ہیں کہ “سرمایہ کاروں کو اب احساس ہو رہا ہے کہ وہ امریکی اثاثوں میں ضرورت سے زیادہ سرمایہ کاری کر چکے ہیں۔”
غیر ملکی سرمایہ کار اس وقت تقریباً 19 ٹریلین ڈالر کے امریکی حصص، 7 ٹریلین ڈالر کے امریکی خزانے کے بانڈز، اور 5 ٹریلین ڈالر کے امریکی کارپوریٹ بانڈز کے مالک ہیں۔ اگر یہ سرمایہ کار اپنی پوزیشنیں کم کرتے رہے، تو ڈالر مزید دباؤ میں آ سکتا ہے۔
کمزور ڈالر کے اثرات کیا ہیں؟
ٹرمپ انتظامیہ کا خیال ہے کہ ڈالر کی محفوظ کرنسی کی حیثیت امریکی معیشت پر بوجھ ہے، کیونکہ اس سے برآمدات مہنگی اور ملکی صنعت کمزور ہو جاتی ہے۔
صدر کے مشیر اسٹیفن میرن نے کہا کہ “ڈالر کی زائد قدر ہماری کمپنیوں اور محنت کشوں پر غیر ضروری بوجھ ڈالتی ہے، جو انہیں عالمی منڈی میں غیر مسابقتی بنا دیتی ہے۔”
کمزور ڈالر امریکی اشیاء کو دنیا میں سستا اور درآمدات کو مہنگا بناتا ہے، جس سے تجارتی خسارہ کم ہو سکتا ہے۔ تاہم، موجودہ ٹیرف پالیسیوں کے باعث اس کا اثر غیر یقینی ہے۔
ترقی پذیر ممالک کے لیے، کمزور ڈالر سے ان کے ڈالر قرضوں کی واپسی آسان ہو جاتی ہے — جیسے پاکستان، زیمبیا یا گھانا کے لیے۔ دوسری جانب، اجناس کی قیمتوں میں ممکنہ اضافہ ان ممالک کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے جو تیل، دھاتیں یا زرعی اجناس برآمد کرتے ہیں — مثلاً انڈونیشیا، نائجیریا، اور چلی۔
کیا دیگر کرنسیاں بہتر کارکردگی دکھا رہی ہیں؟
ٹرمپ کے دوسرے دور حکومت کے آغاز سے اب تک ڈالر کی گراوٹ نے یہ تاثر زائل کر دیا ہے کہ تجارتی جنگ دنیا کی دیگر معیشتوں کو زیادہ نقصان دے گی۔
اس کے برعکس، یورو 13 فیصد بڑھ چکا ہے، اور جرمن و فرانسیسی حکومتی بانڈز کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔
کمزور ڈالر نے امریکی سرمایہ کاروں کو بیرونی اسٹاک مارکیٹوں کی طرف بھی راغب کیا ہے۔ یورپی اسٹاک انڈیکس “سٹاکس 600” میں 15 فیصد اضافہ ہوا ہے، جو ڈالر میں تبدیل کرنے پر 23 فیصد منافع بناتا ہے۔
افراطِ زر میں بھی کمی آئی ہے — جنوری میں 3 فیصد سے کم ہو کر مئی میں 2.3 فیصد ہو گیا ہے۔
یونیئس کے مطابق، ڈالر کی عالمی ریزرو کرنسی حیثیت کو فوری طور پر کوئی خطرہ نہیں، ’’لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ڈالر مزید نہ گرے۔ حقیقت میں، ہم سال کے اختتام تک مزید کمزوری کی توقع رکھتے ہیں۔‘‘