مانیٹرنگ ڈیسک (مشرق نامہ)– امریکی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جاپان پر تجارتی دباؤ بڑھاتے ہوئے مسلسل تیسرے دن جاپانی مصنوعات پر 35 فیصد تک ٹیرف عائد کرنے کی دھمکی دے دی ہے۔
منگل کے روز ایئر فورس ون کے دوران گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے جاپان کو ایک "سخت” اور "بگڑا ہوا” تجارتی شراکت دار قرار دیا اور کہا کہ وہ جاری مذاکرات ختم کرکے یکطرفہ طور پر نئے ٹیرف نافذ کر سکتے ہیں۔
ان کا یہ بیان اتوار کو فاکس نیوز کے ایک انٹرویو اور پیر کو ٹروتھ سوشل پر دیے گئے تبصرے کے بعد سامنے آیا، جن میں انہوں نے جاپان کی جانب سے امریکی چاول اور گاڑیوں کی محدود درآمدات پر سخت تحفظات ظاہر کیے تھے۔ ٹرمپ نے اس امکان کو بھی مشکوک قرار دیا کہ کوئی تجارتی معاہدہ طے پا سکے گا۔
انہوں نے کہا کہ میں انہیں ایک خط لکھوں گا کہ، ‘آپ کا شکریہ… لیکن آپ اب 30 یا 35 فیصد یا جو ہم مناسب سمجھیں، وہ ٹیرف ادا کریں گے۔
اس وقت جاپانی گاڑیوں اور آٹو پرزہ جات پر امریکہ میں 25 فیصد اضافی ٹیرف عائد ہے، جب کہ اسٹیل اور ایلومینیم پر 50 فیصد ٹیرف لاگو ہے۔ دیگر بیشتر اشیاء پر 10 فیصد "جوابی” ٹیرف لگایا گیا ہے، جو معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں 24 فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔ طے شدہ ڈیڈ لائن 9 جولائی ہے۔
ٹرمپ نے مزید کہا کہ امریکہ میں کاروبار کرنا "ایک اعزاز” ہونا چاہیے اور دعویٰ کیا کہ سابق حکومتیں اس تصور کو اجاگر کرنے میں ناکام رہیں۔ یاد رہے کہ اپریل میں جاپانی چیف مذاکرات کار ریوسے آکازاوا نے وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ سے ملاقات کے دوران "میک امریکہ گریٹ اگین” کی سرخ ٹوپی پہن کر خیر سگالی کا مظاہرہ کیا تھا۔
تاہم گزشتہ جمعہ کو واشنگٹن میں ہونے والے ساتویں دور کے مذاکرات میں آکازاوا کی امریکی کامرس سیکریٹری ہاورڈ لٹ نک سے 65 منٹ طویل ملاقات بھی بے نتیجہ رہی۔
اسی کے بعد ٹرمپ کے سخت بیانات کا آغاز ہوا۔ جاپانی حکام نے تاحال ان بیانات پر کوئی ردعمل نہیں دیا، نہ ہی آکازاوا اور نہ ہی ڈپٹی چیف کابینہ سیکریٹری کازوہیکو آوکی نے تبصرہ کیا۔ رپورٹس کے مطابق، آکازاوا اس ہفتے کے آخر میں مذاکرات کے اگلے دور کے لیے واپس آ سکتے ہیں۔
مبصرین ٹرمپ کی حالیہ بیان بازی کو کئی ماہ سے جاری تعطل پر امریکی بے صبری کی علامت قرار دے رہے ہیں۔ ٹوکیو میں ماہرین کا ماننا ہے کہ جاپان کو اب بھی کسی بڑی رعایت کے بغیر وقت گزارنے کی حکمت عملی اپنانی چاہیے۔
ٹوکیو یونیورسٹی کے پروفیسر ریو ساہاشی نے کہا کہ ٹرمپ کی حکمت عملی امریکہ کے کمزور پڑتے تجارتی عزائم کی عکاسی کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جاپان کا بیٹھا رہنا ہی بہتر ہے، وقت گزارنا ہی بہترین حکمت عملی ہے۔
فاکس نیوز کو دیے گئے ایک علیحدہ انٹرویو میں امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے کہا کہ ممکن ہے کوئی معاہدہ جلد نہ ہو سکے۔ ان کے مطابق، اگر معاہدہ امریکی عوام کے مفاد میں نہیں ہوا تو صدر ٹرمپ نے ہمیں کہا ہے کہ ہم اسے مسترد کر دیں۔
ابھی تک امریکہ صرف برطانیہ کے ساتھ ایک تجارتی معاہدہ کر پایا ہے۔ اگرچہ امریکی حکام چین کے ساتھ مذاکرات میں "بڑی پیش رفت” کے دعوے کر رہے ہیں، بالخصوص نایاب ارضیاتی عناصر کے حوالے سے، لیکن تجزیہ کار ان دعوؤں کو مشکوک قرار دے رہے ہیں۔
نومورا ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ماہر اقتصادیات تاکاہیدے کیوچی کا ماننا ہے کہ امریکہ صرف جاپان کو نشانہ نہیں بنائے گا، خاص طور پر جب جاپان نے کسی قسم کا انتقامی ردعمل ظاہر نہیں کیا اور وہ امریکی پالیسیوں کا مطیع شراکت دار سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مارکیٹ کی قوتیں کسی بھی انتہائی اقدام کی راہ میں رکاوٹ ہوں گی۔
پروفیسر ساہاشی نے مزید کہا کہ جاپان کے اندر معاہدے کے لیے ابتدائی جوش میں اب کمی آ چکی ہے۔ "اب جاپان کی حکمت عملی یہ ہے کہ ایسا تاثر نہ جائے کہ مذاکرات مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں — یہی جاپان کی مہارت ہے۔ آپ یکایک تجارتی مذاکرات سے باہر نہیں نکل سکتے۔”