ماضی اور حال کے درمیان پل
کبھی ملک بھر میں معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار، اس خطے میں نئے تعمیر شدہ لکڑی کے محرابی پلوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، جو پرانوں کو پیچھے چھوڑ رہا ہے۔ وانگ رو کی رپورٹ۔
جب ورثے کے محافظ 2003 میں ڈونگ ژی جی سے ملے، جن کا نام کئی دہائیوں پہلے تعمیر کیے گئے ایک پل پر درج تھا، تو وہ 78 سال کے تھے۔ اس وقت تک، پل بنانا ان کے ماضی کا ایک باب بن چکا تھا۔ لیکن تحفظ کاروں نے سکون کا سانس لیا کیونکہ انہیں بالآخر کوئی ایسا شخص مل گیا جو ان نایاب ساختوں کو بنانے کی مہارت رکھتا تھا۔
لکڑی کے محرابی پل کبھی جنوبی ژیجیانگ اور شمالی فُوجیان کے پہاڑی علاقوں میں عام تھے، لیکن 1960 کی دہائی سے، انہیں بتدریج کنکریٹ اور اسٹیل نے بدل دیا، جس کی وجہ سے انہیں بنانے والے کاریگر دیگر پیشوں کی طرف مائل ہو گئے۔ جب نیا ہزاریہ آیا اور ان پلوں کی اہمیت دوبارہ اجاگر ہوئی، تو انہیں بنانے والے ماہرین ناپید معلوم ہونے لگے۔
اسی لیے ڈونگ کا ملنا ایک حیران کن کارنامہ تھا۔ اگرچہ انہوں نے تقریباً 60 سال پہلے آخری بار پل بنایا تھا، لیکن انہیں تکنیکیں اب بھی یاد تھیں۔ 2004 میں، انہیں ٹونگلے پل کی تعمیر میں اپنی مہارت آزمانے اور کئی شاگردوں کو تربیت دینے کا موقع ملا۔
ونژو کورڈ برج کلچر سوسائٹی کے ڈائریکٹر ژونگ شیاؤبو، جنہوں نے ٹونگلے پل کی تعمیر میں مدد کی، نے لکڑی کے محرابی پلوں کے تحفظ کے لیے دو دہائیوں سے زیادہ کا وقت وقف کیا ہے۔ ان کے مطابق، ڈونگ کی مہارت نے اس معدوم ہوتے فن کی بحالی کو ممکن بنایا۔
15 دسمبر کو، چینی لکڑی کے محرابی پلوں کی روایتی تعمیراتی تکنیکوں اور طریقوں کو، جو 2009 میں "فوری تحفظ کے متقاضی غیر مادی ثقافتی ورثے” کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا، "انسانیت کے نمائندہ غیر مادی ثقافتی ورثے” کی فہرست میں منتقل کر دیا گیا۔ یہ اس فن کی شاندار بحالی کا ایک سنگ میل تھا۔
ژونگ اس خبر سے بے حد خوش ہوئے۔ "یہ ہمارے ان تمام اقدامات کا صلہ ہے جو ہم نے ان پلوں کے تحفظ اور مہارت کی منتقلی کے لیے کیے۔ یہ ایک طویل اور صبر آزما سفر تھا—پہلے کوئی کاریگر نہیں تھا، پھر ایک ملا، پھر کئی۔ آخرکار، ہم نے روشنی کی پہلی کرن دیکھ لی۔”
تحفظی اقدامات
ژیجیانگ کے ونژو کے تائشُن کاؤنٹی میں 1977 میں پیدا ہونے والے ژونگ نے لکڑی کے محرابی پلوں کو کبھی خاص نہیں سمجھا تھا—یہ تو ان کے لیے روزمرہ کا ایک عام منظر تھا۔
2000 میں جب انہوں نے سیچوان میں واقع ساؤتھ ویسٹ منزو یونیورسٹی میں چینی زبان میں بیچلر کی ڈگری حاصل کرنے کے دوران ان پلوں کی اصل قدر دریافت کی، تو وہ حیران رہ گئے۔ انہیں معلوم ہوا کہ جو چیز انہوں نے ہمیشہ عام سمجھی تھی، وہ درحقیقت ایک نایاب ثقافتی ورثہ ہے، جو آگ، سیلاب اور کیڑوں کے حملوں کا شکار ہو سکتا ہے، اور اس کی تعمیر کی مہارت مٹنے کے خطرے میں ہے۔
اسی وقت سے، انہوں نے ان پلوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے کا عزم کیا۔
ژونگ کے مطابق، چین میں لکڑی کے محرابی پل کم تعداد میں موجود ہیں اور زیادہ تر جنوبی ژیجیانگ اور شمالی فوجیان کے سات پہاڑی اضلاع میں پائے جاتے ہیں۔ یہ پل بغیر کیلوں یا پیچ کے، چھوٹے، جڑے ہوئے لکڑی کے تنوں کی مدد سے لمبی محرابیں تشکیل دیتے ہیں، جو بوجھ کو مؤثر طریقے سے تقسیم کرتے ہیں۔ ان کی تعمیر کی مہارتیں روایتی طور پر خاندانوں میں نسل در نسل یا شاگردی کے ذریعے منتقل ہوتی رہی ہیں۔
یہ پل محض گزرگاہیں نہیں بلکہ سماجی مراکز بھی تھے، جہاں لوگ اکٹھے ہو کر بات چیت کرتے، آرام کرتے یا مذہبی رسومات ادا کرتے۔
2000 میں، ژونگ نے ان پلوں کے متعلق ایک ویب سائٹ شروع کی، جس نے شائقین کی توجہ حاصل کی۔ کچھ سال بعد، انہوں نے ژیجیانگ اور شنگھائی کی جامعات میں تصویری نمائشیں منعقد کیں تاکہ مزید آگاہی پیدا کی جا سکے۔
2003 میں، انہوں نے سنا کہ سانٹیاؤ پل کے بالائی حصے میں ایک پن بجلی گھر بنانے کا منصوبہ ہے، جو تانگ شاہی دور (618-907) کے اس پل کے نیچے پانی کے بہاؤ کو روک دے گا۔ انہیں خدشہ تھا کہ پانی کی عدم موجودگی اس پل کو بے مقصد بنا دے گی اور وہ گمنامی میں کھو جائے گا۔ چنانچہ انہوں نے اپنی ویب سائٹ پر اس کے تحفظ کے لیے اپیل جاری کی۔
عوامی کوششوں کے نتیجے میں، بجلی گھر کے منصوبہ سازوں نے پانی کے بہاؤ میں ترمیم کی تاکہ پل اپنا قدیم فریضہ جاری رکھ سکے۔
مہارت کے وارثوں کی تربیت
جلد ہی، ژونگ نے ونژو کورڈ برج کلچر سوسائٹی قائم کی اور سیمینارز منعقد کیے۔ انہوں نے اسکالرز کو ہر سال ان پلوں کا معائنہ کرنے کی بھی ترغیب دی۔ ان کی محنت کی بدولت، یہ پل جو کبھی پہاڑوں کی گہرائی میں گم تھے، اب عالمی سطح پر پہچانے جانے لگے ہیں۔
ژونگ کے مطابق، ان پلوں کے تحفظ کی آگاہی میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ "ماضی میں، یہ پل بے یار و مددگار رہ جاتے تھے اور ترقیاتی منصوبوں کی نذر ہو جاتے تھے۔ لیکن اب ہمارے پاس رضاکاروں کی ٹیمیں اور نگرانی کے آلات موجود ہیں، جو خطرات کا پتہ چلا کر ان کا سدباب کر سکتے ہیں۔”
انہوں نے پل بنانے والے کاریگروں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتے دیکھا ہے، جو ان کی بقا کو یقینی بنانے میں مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔
چونکہ ڈونگ اور چند دیگر عمر رسیدہ کاریگر تلاش کیے جا چکے تھے، مقامی حکومت نے روایتی طریقوں سے پل بنانے کے لیے سبسڈی جیسے اقدامات متعارف کروائے، تاکہ اس فن کو فروغ دیا جا سکے۔
"اب جنوبی ژیجیانگ اور شمالی فوجیان کے کچھ علاقوں میں نئے لکڑی کے محرابی پلوں کی تعداد پرانوں سے زیادہ ہو چکی ہے، جو ترقی کا ایک مثبت رجحان ہے۔ دو دہائیاں قبل یہ فن ناپید ہونے کے قریب تھا، مگر اب صورتحال میں خوش آئند تبدیلی آ چکی ہے،” ژونگ کہتے ہیں۔
یونیسکو کی ویب سائٹ پر موجود سرکاری دستاویزات کے مطابق، 2009 میں جب اسے "فوری تحفظ کے متقاضی غیر مادی ثقافتی ورثے” کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا، تو اس فن کے صرف چار ماہر کاریگر موجود تھے، اور وہ سب 75 سال سے زائد عمر کے تھے۔ اب، 40 سے زائد نمائندہ وارث موجود ہیں، جن کی اوسط عمر 56 سال ہے۔
ژونگ کے لیے، ان کوششوں کا سب سے شاندار ثبوت تائشُن میں تین پرانے پلوں کی بحالی تھی، جو 2016 میں سپر طوفان میرانتی کے نتیجے میں تقریباً بہہ گئے تھے۔
"یہ پل محض گزرگاہیں نہیں، بلکہ ثقافتی تاریخ کے امین ہیں،” ژونگ کہتے ہیں۔ "انہیں محفوظ رکھنا اور ان کے ثقافتی معنی کو اجاگر کرنا ہم سب کا فرض ہے۔”