پیر, جولائی 7, 2025
ہوممضامینمجرمانہ گٹھ جوڑ: ٹرمپ کی 60 روزہ مہلت کے خاتمے پر اسرائیلی...

مجرمانہ گٹھ جوڑ: ٹرمپ کی 60 روزہ مہلت کے خاتمے پر اسرائیلی جارحیت کا آغاز
م

تحریر: موسیٰ اقبال

ایران پر حالیہ اسرائیلی جارحیت، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی 60 روزہ مہلت کے اختتام کے ساتھ ہوئی، جس نے نہ صرف ایٹمی مذاکرات کی بدنیتی کو بے نقاب کیا بلکہ اسرائیلی دہشت گردی اور ایران کے اندر ٹارگٹ کلنگ میں واشنگٹن کی شراکت داری کو بھی واضح کر دیا۔

ٹھیک 62 روز قبل، ٹرمپ نے ایران کو دھمکی دی تھی کہ اگر اس نے دو ماہ میں اپنا سول نیوکلیئر پروگرام ختم نہ کیا تو حملے کے لیے تیار رہے۔ اس مدت کے گزرنے کے بعد، جمعہ کو ایرانی عوام نے اسرائیلی جنگی طیاروں کی بمباری کی آواز کے ساتھ آنکھ کھولی۔ ان حملوں نے رہائشی علاقوں، نیوکلیئر تنصیبات اور فوجی مراکز کو نشانہ بنایا، اور کئی اعلیٰ ایرانی فوجی کمانڈرز اور سائنسدان شہید ہوئے۔

حملے کے فوری بعد امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے دعویٰ کیا کہ یہ اسرائیل کی "یکطرفہ کارروائی” تھی، جو کہ ایک جھوٹ ہے، کیونکہ خود ٹرمپ نے پہلے ہی واضح کر دیا تھا کہ یہ کارروائی ان کی دھمکیوں کا تسلسل ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ امریکہ اس جارحیت میں مکمل طور پر شریک ہے۔

مذاکرات صرف وقت گزاری کا حربہ تھے، جیسا کہ "وال اسٹریٹ جرنل” نے بھی تسلیم کیا۔ امریکہ نے ان مذاکرات کے دوران جن شرائط کا تقاضا کیا، ان میں انہی تنصیبات کی مکمل تباہی شامل تھی جن پر اب حملے کیے گئے۔ امریکہ اسرائیل کے ساتھ فوجی انٹیلیجنس بھی شیئر کرتا رہا ہے، جیسا کہ غزہ، لبنان، شام اور یمن میں اسرائیلی حملوں کے دوران دیکھا گیا۔

اسرائیل نے جو ہتھیار ایران پر برسائے، وہ بھی زیادہ تر امریکی ساختہ تھے۔ اکتوبر 2023 سے اب تک امریکہ اسرائیل کو 22 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے ہتھیار فراہم کر چکا ہے، جن میں آئرن ڈوم انٹرسپٹرز، بھاری بم اور میزائل شامل ہیں۔

سیاسی سطح پر بھی امریکہ اسرائیل کا مکمل محافظ ہے — اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف کسی بھی قرارداد کو ویٹو کرتا ہے، عالمی فوجداری عدالت (ICC) کے ججوں پر پابندیاں لگاتا ہے، اور جنوبی افریقہ جیسے ممالک کو سزا دیتا ہے جو اسرائیل کے خلاف قانونی کارروائی کرتے ہیں۔

امریکہ میں pro-Palestine کارکنوں پر کریک ڈاؤن، مظاہروں پر پابندیاں، اور فلسطینی نسل کشی پر سوال اٹھانے والوں کو نشانہ بنانا معمول بن چکا ہے۔ یہ غیر مشروط حمایت ہی ہے جس نے اسرائیل کو ایران پر اس وحشیانہ حملے کی ہمت دی۔

امریکہ اور اسرائیل کا اتحاد ایران کو "آخری رکاوٹ” سمجھتا ہے جو خطے میں ان کے تسلط کے راستے میں کھڑی ہے۔ ایرانی فوجی رہنماؤں کو شہید کرنا، سائنسدانوں کو گھروں میں قتل کرنا، اور شہری علاقوں کو نشانہ بنانا، اسی منصوبے کا حصہ ہے۔

ایران ہمیشہ فلسطینیوں کی حمایت کرتا رہا ہے — صرف بیانات سے نہیں، بلکہ عملی امداد کے ذریعے — اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل "رجیم چینج” کے منصوبے پر برسوں سے کام کر رہے ہیں۔

نتن یاہو نہ صرف مقبوضہ علاقوں بلکہ دنیا بھر میں شدید غیر مقبول ہو چکے ہیں۔ ICC کی جانب سے ان کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ، اور عالمی سطح پر اسرائیل کی پالیسیوں کی مذمت، اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ صہیونی منصوبہ ایک نسل پرستانہ و نوآبادیاتی نظام ہے۔

اب آدھے سے کم امریکی اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں، جو کہ فلسطینی مزاحمتی آپریشن "طوفان الاقصیٰ” (اکتوبر 2023) کے بعد ایک اہم تبدیلی ہے۔

ایران نے امریکہ کو اس جارحیت میں "براہ راست شریک” قرار دے کر اتوار کو عمان میں ہونے والے مذاکرات سے دستبرداری کا اعلان کر دیا ہے۔ ایران نے جمعہ کی رات میزائل حملوں کے ذریعے اسرائیل کو جوابی پیغام دے دیا کہ وہ دباؤ یا دھمکیوں سے جھکنے والا نہیں۔

پچھلی کئی دہائیوں کے دوران ایران کو دی گئی پابندیوں، سائنسدانوں کی ٹارگٹ کلنگ، اور خفیہ تخریبی کارروائیوں نے ایران کو اس تاریخی لمحے کے لیے تیار کیا ہے۔ ایران ثابت کر رہا ہے کہ وہ نہ صرف اپنی خودمختاری کا دفاع کر سکتا ہے بلکہ خطے کے مظلوموں کی حمایت بھی ترک نہیں کرے گا۔

مقبول مضامین

مقبول مضامین