قاہرہ (مشرق نامہ) مصر نے غزہ میں دو ماہ کی جنگ بندی کے لیے کوششیں تیز کر دی ہیں اور اسرائیلی جارحیت کے دوبارہ آغاز پر شدید ردعمل کی تنبیہ جاری کی ہے۔ مصری وزیرِ خارجہ بدر عبدالعاطی نے اتوار کی شب ایک انٹرویو میں اعلان کیا کہ قاہرہ 60 روزہ عبوری جنگ بندی پر مبنی ایک معاہدے پر کام کر رہا ہے، جو مستقبل میں ایک دیرپا سیاسی حل کی بنیاد بن سکتا ہے۔
انہوں نے کہا، ہم غزہ میں ایک ایسے مجوزہ معاہدے پر کام کر رہے ہیں جس میں 60 روزہ جنگ بندی شامل ہو، اور ہمیں امید ہے کہ یہ اگلے مرحلے کی جانب منتقلی میں مدد دے گا۔
عبدالعاطی نے واضح کیا کہ اگر جنگ بندی کے بعد اسرائیلی حملے دوبارہ شروع ہوئے تو یہ پورے خطے کے لیے خطرناک عدم استحکام کا باعث بنیں گے۔ انہوں نے 19 جنوری کی جنگ بندی کا حوالہ دیا، جسے اسرائیلی افواج نے کسی جواز کے بغیر توڑ دیا تھا۔
مصری وزیرِ خارجہ نے مزید کہا کہ امریکہ کو بھی اس بات کی اہمیت کا ادراک ہے کہ غزہ میں کسی بھی ممکنہ معاہدے میں ٹھوس ضمانتیں شامل کی جائیں تاکہ جنگ بندی کا تسلسل برقرار رہ سکے۔
امن معاہدہ قائم، مگر تعلقات کشیدگی کا شکار
1979 سے مصر اور اسرائیل کے درمیان قائم امن معاہدے سے متعلق سوال پر عبدالعاطی نے کہا، ہم معاہدے اور اس کی تمام ذمہ داریوں کے پابند ہیں، اور دونوں فریقین کی جانب سے اس کے تسلسل میں دلچسپی واضح ہے۔
تاہم انہوں نے غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے میں جاری قتلِ عام اور آبادکاروں کے تشدد کو مصری-اسرائیلی تعلقات پر منفی اثر ڈالنے والا عنصر قرار دیا۔ ان کے مطابق، فلسطینی عوام کے خلاف ہونے والے سنگین مظالم خصوصاً مغربی کنارے میں، ہمارے باہمی تعلقات کی سمت کو دھندلا رہے ہیں۔
قومی سلامتی پر سمجھوتہ ممکن نہیں
جب ان سے سوال کیا گیا کہ مصر کے عوام اسرائیل کو خطے میں بے لگام طاقت کے طور پر دیکھنے لگے ہیں، خاص طور پر امریکہ کی پشت پناہی کے تناظر میں، تو عبدالعاطی کا جواب دوٹوک تھا کہ مصر ایک بڑی اور مضبوط ریاست ہے، جو کسی بھی سمت سے قومی سلامتی کو لاحق خطرے کا سامنا کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔ ہماری مسلح افواج ملک کی سرحدوں اور مفادات کے تحفظ کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔
طاقت سے امن ممکن نہیں
مصری وزیرِ خارجہ نے اسرائیلی قیادت کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ وہ بارہا یہ پیغام دے چکے ہیں کہ غرور اور عسکری برتری سے اسرائیل کو دیرپا تحفظ نہیں ملے گا۔
انہوں نے اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کی مشرقِ وسطیٰ کے نقشے کو ازسرِ نو ترتیب دینے کی خواہش کو "خالص فریبِ نظر” قرار دیا، اور کہا کہ خطے کی سلامتی پر صرف اسی صورت میں بات ہو سکتی ہے جب تمام ریاستوں کی اجتماعی مرضی شامل ہو۔ کسی ایک طاقت کی مسلط کردہ سوچ امن لا سکتی ہے نہ تحفظ۔ حقیقت واضح ہے: طاقت اور تسلط نے اسرائیل کو کبھی محفوظ نہیں بنایا۔
‘اسرائیل اب اثاثہ نہیں، خطرہ بنتا جا رہا ہے’
برطانوی اخبار ٹیلی گراف کے مطابق، اسرائیل کے حالیہ ایرانی اہداف پر حملے نے خلیجی عرب ریاستوں میں شدید تشویش پیدا کر دی ہے۔ وہ ممالک جو ماضی میں تل ابیب کو ایران کے خلاف دفاعی بند سمجھتے تھے، اب اسے خطے میں سب سے بڑا غیر مستحکم عنصر تصور کرنے لگے ہیں۔
ایک عرب سفارتکار نے ایران پر اسرائیلی حملے کو "ناقابلِ معافی لاپروائی” قرار دیت ہوئے کہا کہ نیتن یاہو خطے میں بے قابو طاقت بن چکے ہیں — چاہے وہ غزہ ہو، لبنان، شام یا اب ایران۔
خلیجی ریاستوں کے چند حکام نے تسلیم کیا کہ وہ ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کی اسرائیلی کوششوں کے حامی تھے، مگر اب نیتن یاہو کے جارحانہ عزائم نے ان میں شدید اضطراب پیدا کر دیا ہے۔
ایک اہلکار کے مطابق:
یہ طاقت اب ہمارے لیے اثاثہ نہیں، مسئلہ بن چکی ہے۔
معاہدوں کی ساکھ متزلزل
اس بدلے ہوئے مؤقف نے ان نارملائزیشن معاہدوں کو بھی زک پہنچائی ہے، جو سابق امریکی صدر ٹرمپ کے دور میں متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کو رسمی شکل دینے کے لیے کیے گئے تھے۔ اب جب اسرائیل کا اصل کردار — ایک جارح ریاست اور قابض قوت — کھل کر سامنے آ چکا ہے، ان معاہدوں کی افادیت پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔
سالوں سے مغربی اور خلیجی دارالحکومتوں میں ایران کو ایک "خطرہ” بنا کر پیش کیا جاتا رہا، جبکہ ایران کی پالیسی مسلسل مذاکرات، خودمختاری اور فلسطین کے لیے انصاف کی وکالت پر قائم رہی ہے۔ یہ مؤقف اب عوامی رائے میں تیزی سے مقبول ہو رہا ہے، اگرچہ حکومتی پالیسیوں میں اس کی مکمل عکاسی ابھی باقی ہے۔
ٹیلی گراف کے مطابق، دبئی میں واقع ایک پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ "بحوث” کے ڈائریکٹر جنرل محمد بہارون نے خبردار کیا کہ اسرائیل کی جارحانہ صلاحیت اب کسی بھی ریاست کو نشانہ بنا سکتی ہے۔
ان کے مطابق:
جب ایک ریاست یہ صلاحیت رکھتی ہو کہ کسی بھی ملک پر حملہ کر سکتی ہے، تو کون سا عنصر اسے قطر یا اس کے گیس ذخائر پر حملے سے روک سکتا ہے؟ خاص طور پر جب قطر میں حماس کا سیاسی دفتر تل ابیب کو ہمیشہ کھٹکتا رہا ہے