تحریر: فرا ہیوز
سید حسن نصراللہ ایک انقلابی رہنما تھے، جنہوں نے آخری سانس تک آزادی، انصاف اور عزت کے لیے لڑنے والے مظلوموں کو آزاد کرانے کی جدوجہد کی۔
ہم اپنے محبوب رہنما سید حسن نصراللہ کے بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں؟ وہ ایک انقلابی، دور اندیش اور تاریخی شخصیت تھے، جنہیں اپنی قوم میں انتہائی قابلِ احترام مقام حاصل تھا۔
ایسے رہنما، جن کے الفاظ اور اعمال دنیا بھر کے مظلوموں کے لیے مشعلِ راہ بنے۔ وہ ایک ایسے شخص تھے، جن کی عزت، اخلاقیات، دیانت، گہری ہمدردی اور انسان دوستی اس تاریک اور بدی سے بھری دنیا میں امید کی کرن بنی رہی۔
ہم نے کتنے ہی ہیروز کھو دیے، بہت زیادہ، بہت جلد اور بہت کم عمری میں۔
اس صیہونی فسطائی اور نسل پرست ٹولے نے، جو فلسطین کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے، سید نصراللہ کو بے دردی سے شہید کر دیا۔ ان کی شہادت ان کے مظلوموں کے لیے انصاف کے غیر متزلزل عزم کی گواہی بن گئی۔
وہ اپنی قوم کی خدمت میں شہید ہوئے، دوسروں کی آزادی کے لیے جان دی۔ وہ میدانِ جنگ کے ایک سپاہی تھے، ایک ایسے جنگجو جو حق و باطل، انصاف و ناانصافی، اور اخلاق و بے اخلاقی کی ازلی کشمکش میں مصروف تھے۔
جب ان کے سامنے قبضہ اور جبر آیا، تو انہوں نے آزادی کا انتخاب کیا۔ انہوں نے کھڑے ہو کر فرق پیدا کرنے کی جدوجہد کی، اپنی ہستی کے ہر ہر ریشے سے ظلم کے خاتمے اور دنیا میں امن کے قیام کے لیے کوشش کی۔
یہی ہے وہ طریقہ جس سے میں سید حسن نصراللہ کو یاد رکھتا ہوں۔ وہ شہداء کے اس قافلے میں شامل ہو گئے ہیں جو لبنان سے فلسطین، شام، یمن، عراق، ایران، کیوبا، وینزویلا، چلی، آئرلینڈ، اور جمہوریہ کانگو تک پھیلا ہوا ہے۔
سید نصراللہ بھی چی گویرا، آلندے، پیٹریس لوممبا، شاویز، منڈیلا، کونولی اور گاندھی کی مانند ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ وہ ان تمام لوگوں کے دلوں میں دھڑکتے رہیں گے، جو ظلم، استحصال اور سامراجیت، نوآبادیاتی نظام اور سرمایہ داری کے کرپٹ حربوں کے خلاف برسرِ پیکار ہیں۔
سید نصراللہ کی قیادت میں یہ تحریک صیہونی قبضے کے خلاف، فلسطین کی نوآبادیاتی غلامی کے خلاف، اور مغربی سامراجی مداخلت کے خلاف ایک ردعمل تھی۔
وہ ایک ایسے ہیرو، جنگجو اور نجات دہندہ بنے، جو ان پر اور ان کے ملک پر مسلط کی گئی سخت ترین آزمائشوں میں کندن بن کر نکلے۔
وہ نہ صرف اپنے خاندان، قوم اور علاقے کے لیے ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہیں بلکہ وہ مزاحمتی محور، اپنے عالمی ساتھیوں اور پوری انسانیت کے لیے بھی ایک انمٹ کمی چھوڑ گئے ہیں۔
میں ان کی جدائی کا غم ضرور رکھتا ہوں، لیکن اس بات میں تسلی بھی پاتا ہوں کہ وہ شہید اسی راہ میں ہوئے جس پر وہ زندگی بھر چلتے رہے— دنیا کو بدی سے نجات دلانے اور انسانیت کے مصائب کا خاتمہ کرنے کی راہ میں۔
وہ فسطائیت کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔
وہ انسانیت کی بقا کے لیے لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔
وہ آزادی کے لیے لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔
وہ انصاف کے لیے لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔
وہ آپ کے لیے شہید ہوئے، وہ میرے لیے شہید ہوئے۔
پیٹریس لوممبا نے کہا تھا:
"وقار کے بغیر کوئی آزادی نہیں، انصاف کے بغیر کوئی وقار نہیں، اور خودمختاری کے بغیر کوئی آزاد انسان نہیں ہو سکتا۔”
سید حسن نصراللہ نے کہا تھا:
"جب تک دنیا میں سامراجیت باقی ہے، دائمی امن ممکن نہیں۔”
میں ان کے فہم و فراست، ان کے مزاح، ان کی عاجزی، ان کی شفقت اور مظلوموں، محروموں، تنہا کیے گئے لوگوں، پست حال افراد، غریبوں اور مقبوضہ سرزمینوں کے لیے ان کے درد کو یاد کروں گا۔
سب سے بڑھ کر، میں ان کی تقریروں کو یاد کروں گا۔
ان کے الفاظ نے سامراجی سلطنت کو چیلنج کیا، استعمار کے مراکز کو ہلا کر رکھ دیا، اور مزاحمت کی آواز کو پوری دنیا میں گونجا دیا۔
میرے ہیرو، وہ ابدی افسانہ ہیں، سید حسن نصراللہ، جن کی مانند شاید ہم دوبارہ نہ دیکھ پائیں۔
ہم ان کی حکمت سے محبت کرتے تھے، اور ہم ان کی میراث کو ہمیشہ یاد رکھیں گے۔
یہاں تک کہ ان کی وفات کے بعد بھی، مغربی ایشیا کو بیرونی قابضین سے آزاد کرانے کا ان کا خواب حقیقت بن سکتا ہے۔ یہی ان کی میراث ہوگی— ایک ایسی دنیا، جو ان کے تخیل میں امن اور انصاف سے بھری ہوئی تھی، اور جو بلاشبہ ہماری جدوجہد کے قابل ہے۔