مزاحمت اور اضطراب کی تاریخ محض حالیہ دہائیوں تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک دیرینہ اور مسلسل جدوجہد کی عکاسی کرتی ہے۔ اگرچہ مختلف ادوار میں ریاست کی جانب سے سیاسی مفاہمت، فوجی کارروائیوں یا ترقیاتی وعدوں کے ذریعے اس خطے میں ابھرتی ہوئی بےچینی کو وقتی طور پر دبانے کی کوششیں کی گئیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان کی بےاطمینانی، احساسِ محرومی اور خودمختاری کی خواہش کبھی مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکی۔ یہ آگ کئی بار دھیمی پڑی، کچھ عرصے کے لیے راکھ تلے دبی رہی، مگر بجھنے کا نام نہ لے سکی۔ مختلف حکومتوں کی پالیسیوں، قومی سطح پر نظرانداز کیے جانے، اور وفاقی اختیارات کی ناہموار تقسیم نے اس آگ کو وقتاً فوقتاً پھر بھڑکایا۔ گویا بلوچستان کی سیاسی تاریخ ایک ایسی سلگتی ہوئی چنگاری کی مانند ہے جو وقت کے تھپیڑوں سے کمزور تو ضرور ہوئی، مگر کبھی مکمل طور پر سرد نہیں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی یہ خطہ ریاستی پالیسیوں، شناخت کے بحران، اور وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم جیسے مسائل کے گرد گھومتی ہوئی ایک گہری، پیچیدہ اور حساس بحث کا مرکز بنا ہوا ہے۔