رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں کو خاموشی سے جڑواں شہروں سے بےدخل کرنے کا انکشاف ہوا ہے، جبکہ انہیں بتدریج افغانستان منتقل کرنے کا منصوبہ بھی تیار کر لیا گیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق، باخبر ذرائع نے بتایا ہے کہ حکومت نے رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں کو اسلام آباد اور راولپنڈی سے منتقل کرنے اور بتدریج انہیں وطن واپس بھیجنے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔
حکام کو یہ ہدایت بھی دی گئی ہے کہ وہ اس منصوبے پر کسی عوامی اعلان کے بغیر عمل درآمد کریں۔
گزشتہ ہفتے وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ہونے والے متعدد اجلاسوں میں اس منصوبے کو حتمی شکل دی گئی۔ وزیراعظم آفس کے ذرائع نے تصدیق کی کہ ایک اجلاس میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر بھی شریک تھے۔
منتقلی کے منصوبے کے پہلے مرحلے کے تحت، افغان سٹیزن کارڈ (اے سی سی) رکھنے والے افغان شہریوں کو فوری طور پر اسلام آباد اور راولپنڈی سے منتقل کیا جائے گا۔ بعد ازاں، انہیں غیر قانونی اور غیر دستاویزی پناہ گزینوں کے ساتھ افغانستان واپس بھیج دیا جائے گا۔ اے سی سی نادرا کی جانب سے رجسٹرڈ افغان شہریوں کو جاری کردہ شناختی دستاویز ہے۔
اقوام متحدہ کی انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) کے مطابق، اے سی سی افغان شہریوں کو پاکستان میں قیام کے دوران عارضی قانونی حیثیت فراہم کرتا ہے۔ تاہم، اس کی مدت کا تعین کرنے کا اختیار وفاقی حکومت کے پاس ہے، جو فیصلہ کرتی ہے کہ اے سی سی کتنے عرصے تک کارآمد رہے گا۔
قانونی طور پر پاکستان میں کہیں بھی رہنے کی اجازت رکھنے والے پروف آف رجسٹریشن کارڈ (پی او آر) کے حامل افغان شہریوں کو منصوبے کے دوسرے مرحلے میں وطن واپس بھیج دیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق، پی او آر رکھنے والے افغان شہریوں کو اسلام آباد اور راولپنڈی سے منتقل کیا جائے گا، تاہم انہیں فوری طور پر ملک بدر نہیں کیا جائے گا۔ کابینہ نے انہیں جون تک پاکستان میں قیام کی اجازت دے دی ہے۔
پی او آر اور اے سی سی رکھنے والے پاکستان میں مقیم افغان شہریوں کی مجموعی تعداد کا تخمینہ بالترتیب 13 لاکھ اور 7 لاکھ لگایا گیا ہے۔
دریں اثنا، تیسرے ممالک میں آباد کاری کے منتظر افغان شہریوں کو 31 مارچ تک اسلام آباد اور راولپنڈی سے منتقل کر دیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق، وزارت خارجہ سفارت خانوں اور دیگر عالمی تنظیموں کے ساتھ رابطے میں رہے گی تاکہ دوبارہ آبادکاری کے عمل کو تیز کیا جا سکے۔ جو افغان کسی تیسرے ملک میں آباد نہ ہو سکے، انہیں بھی واپس افغانستان بھیج دیا جائے گا۔
دوبارہ آبادکاری اور سابق فوجیوں کے سرکردہ گروپ AfghanEvac# کے بانی، شان وان ڈیور کے مطابق، 10 سے 15 ہزار افغان باشندے پاکستان میں ویزے یا امریکا میں دوبارہ آبادکاری کے منتظر ہیں۔
یہ واضح نہیں کہ ان افغان باشندوں میں سے کتنے اسلام آباد اور راولپنڈی میں مقیم ہیں، تاہم انہیں جڑواں شہروں سے منتقل کرنے کے فیصلے سے پناہ گزینوں کو لاجسٹک مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ان میں سے کئی افراد کو اسلام آباد میں غیر ملکی مشنز اور عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کے دفاتر کے دورے کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔
کسی تیسرے ملک میں آبادکاری کے منتظر افغان شہریوں میں سے کئی وفاقی دارالحکومت کے مختلف لینگویج سینٹرز میں بھی رجسٹرڈ ہیں۔
وزارت داخلہ منتقلی اور ملک بدری کے منصوبوں کی قیادت کرے گی، جبکہ انٹیلی جنس ایجنسیاں آئی بی اور آئی ایس آئی ان منصوبوں پر عمل درآمد کی نگرانی کریں گی۔
پاکستان نے 2023 میں لاکھوں افغان شہریوں کو ملک بدر کرنے کے لیے ملک گیر کریک ڈاؤن کا آغاز کیا تھا، جن کے بارے میں حکومت کا مؤقف تھا کہ وہ غیر قانونی طور پر ملک میں مقیم ہیں۔
آئی او ایم کے مطابق، 15 ستمبر 2023 سے اب تک 8 لاکھ 5 ہزار 991 افغان باشندے اپنے وطن واپس جا چکے ہیں۔
انسانی حقوق کے کارکنوں اور سول سوسائٹی کے ارکان نے افغان شہریوں کی جبری ملک بدری پر تنقید کی ہے اور اس کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک درخواست بھی دائر کر رکھی ہے۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ نے درخواست کی آخری سماعت 7 جنوری کو کی تھی۔
سماعت کے دوران، وفاقی حکومت نے عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی کہ تمام رجسٹرڈ افغان مہاجرین، بشمول پی او آر اور اے سی سی رکھنے والے، مکمل قانونی تحفظ کے حق دار ہوں گے اور انہیں نہ تو گرفتار کیا جائے گا اور نہ ہی ملک بدر کیا جائے گا۔
تاہم، گزشتہ ماہ آئی او ایم کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ دسمبر کے آخری دو ہفتوں کے دوران اسلام آباد میں سیکڑوں افغان شہریوں کو گرفتار کرکے حراست میں لیا گیا۔
