غزہ (مشرق نامہ)– فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس نے کہا ہے کہ اس نے غزہ میں جنگ بندی سے متعلق حالیہ تجویز کا "مثبت روح” کے ساتھ جواب دیا ہے اور اس پر عملدرآمد کے لیے مذاکرات میں سنجیدگی سے شامل ہونے کے لیے تیار ہے۔ اس معاہدے میں قیدیوں کے تبادلے اور غزہ میں اسرائیلی نسل کشی پر مبنی جنگ کے خاتمے کے لیے بات چیت شامل ہے۔
غزہ میں قائم حماس نے ہفتے کے روز ایک بیان میں اعلان کیا کہ اس نے اس تجویز پر داخلی مشاورت مکمل کر لی ہے اور دیگر فلسطینی مزاحمتی گروہوں سے بھی صلاح مشورہ کیا ہے تاکہ اسرائیلی جارحیت کے خاتمے کے لیے اس فریم ورک پر موقف طے کیا جا سکے۔
بیان کے مطابق:
تحریک نے برادر ثالثوں کو اپنا جواب پہنچا دیا ہے جو کہ مثبت روح کا مظہر ہے۔ حماس پوری سنجیدگی سے فوراً اس فریم ورک پر عمل درآمد کے طریقہ کار سے متعلق مذاکرات کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہونے کے لیے تیار ہے۔
تجویز کردہ معاہدے میں 60 روزہ جنگ بندی شامل ہے جس کے دوران حماس مرحلہ وار اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرے گی، جبکہ اس کے بدلے غزہ کے محصور علاقے میں انسانی امداد میں نمایاں اضافہ کیا جائے گا۔
تبادلے کی مجوزہ تفصیلات کے مطابق "فہرست 58” میں شامل 10 زندہ اور 18 مردہ اسرائیلی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔ رہائی کا آغاز پہلے دن 8 زندہ قیدیوں کے ساتھ ہوگا، جس کے بعد رہائیاں دن 7، 30، 50 اور 60 کو انجام دی جائیں گی۔
حماس کی منظوری کے فوراً بعد امدادی سامان غزہ پہنچنا شروع ہو جائے گا، اور اس کی مقدار جنوری 2025 کے معاہدے کے مساوی ہوگی۔ امداد کی تقسیم اقوامِ متحدہ اور فلسطینی ہلال احمر جیسے اداروں کے ذریعے کی جائے گی۔
جنگ بندی کے نفاذ کے بعد تمام اسرائیلی حملے بند کیے جائیں گے، جبکہ غزہ پر فوجی اور نگرانی کی پروازیں روزانہ 10 گھنٹے معطل رہیں گی، اور قیدیوں کے تبادلے والے دنوں میں یہ وقفہ 12 گھنٹے تک بڑھایا جائے گا۔
مستقل جنگ بندی کے لیے مذاکرات پہلے دن سے ہی ثالثوں کی نگرانی میں شروع کیے جائیں گے، جن میں تمام قیدیوں کے مکمل تبادلے، مستقبل کے سیکیورٹی انتظامات اور اسرائیلی فوجیوں کے انخلا جیسے اہم نکات شامل ہوں گے۔
ادھر حماس کی اتحادی تنظیم اسلامی جہاد نے بھی ہفتے کے روز اپنے بیان میں حماس اور اسرائیل کے درمیان مجوزہ جنگ بندی سے متعلق مذاکرات کی حمایت کا اعلان کیا، تاہم اس کے ساتھ اس عمل کو مستقل جنگ بندی کی ضمانت سے مشروط کیا۔
اسلامی جہاد نے کہا کہ ہم نے حماس کو ثالثوں کی تجویز پر عمل درآمد کے طریقہ کار سے متعلق کئی تفصیلی نکات پیش کیے ہیں، اور ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں اضافی ضمانتیں دی جائیں تاکہ یہ اطمینان حاصل ہو کہ [اسرائیل] قیدیوں کی رہائی کے بعد دوبارہ جارحیت شروع نہیں کرے گا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق اسرائیل نے اس جنگ بندی فریم ورک کو اصولی طور پر تسلیم کر لیا ہے، تاہم وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اب تک سرکاری طور پر اس کی توثیق نہیں کی ہے۔
نیتن یاہو، جن پر غزہ میں جنگی جرائم کے باعث عالمی فوجداری عدالت (ICC) میں مقدمہ چل رہا ہے، پیر کے روز واشنگٹن میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کریں گے۔
غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق اسرائیل کی نسل کش جنگ میں اب تک کم از کم 57,268 فلسطینی شہید اور 135,625 زخمی ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔
یاد رہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان 17 جنوری کو بھی ایک جنگ بندی معاہدہ ہوا تھا، جو 19 جنوری سے نافذالعمل رہا، مگر اسرائیل نے 18 مارچ کو اچانک حملے شروع کر دیے، جس میں ایک ہی رات میں کم از کم 400 فلسطینی شہید کر دیے گئے، اور یوں دو ماہ کی جنگ بندی ٹوٹ گئی۔
بعد ازاں امریکہ کی حمایت سے اسرائیل نے جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کی بات چیت سے خود کو علیحدہ کر لیا، جو جنگ کے خاتمے اور باقی اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے لیے طے کی گئی تھی۔