اسلام آباد[مشرق نامہ]:مالی مشکلات سے دوچار حکومت نے مالی سال 2024-25 کے دوران صارفین سے بجلی کے بلوں میں عائد ود ہولڈنگ ٹیکس (WHT) اور جنرل سیلز ٹیکس (GST) کی مد میں 490 ارب روپے اکٹھے کیے، جو گزشتہ مالی سال 2023-24 کے 600 ارب روپے کے مقابلے میں 110 ارب روپے کم ہیں۔ ایف بی آر کے عبوری اعداد و شمار کے مطابق، مالی سال 2024-25 میں تنخواہ دار طبقے نے 552 ارب روپے ٹیکس کی مد میں ادا کیے، جو گزشتہ سال کے 367 ارب روپے کے مقابلے میں 185 ارب روپے زیادہ ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس طبقے پر ٹیکس کا بوجھ بڑھ گیا ہے۔
بجلی کے بلوں کے ذریعے ٹیکس کی مد میں کمی کی ممکنہ وجوہات میں صارفین کا شمسی توانائی (سولر پینلز) کی طرف رجحان اور صنعتی شعبے میں بجلی کے استعمال میں کمی شامل ہے، جو سست یا منفی معاشی شرح نمو کی وجہ سے ہوئی۔ اقتصادی سروے 2024-25 کے مطابق، جولائی تا مارچ کے دوران ملک میں کل بجلی کی کھپت 80,111 گیگا واٹ آور (GWh) رہی، جو گزشتہ سال کے 83,109 GWh سے 3.6 فیصد کم ہے۔ اس کمی کی وجوہات میں توانائی بچت اقدامات، بجلی کی قیمتوں میں اضافہ، آف گرڈ سولر سلوشنز اور صنعتی سرگرمیوں میں سستی شامل ہیں۔
گھریلو صارفین کا بجلی میں حصہ بڑھ کر 49.6 فیصد (39,728 GWh) ہو گیا، جو کہ گزشتہ سال 47.3 فیصد (39,286 GWh) تھا۔ اس اضافے کی ممکنہ وجوہات میں آبادی میں اضافہ، گھریلو آلات کا زیادہ استعمال اور موسمیاتی استحکام شامل ہیں۔ صنعتی شعبے کی بجلی کھپت میں نمایاں کمی واقع ہوئی، جو مالی سال 2024 میں 28,830 GWh تھی، جبکہ مالی سال 2025 میں یہ کم ہو کر 21,082 GWh رہ گئی۔
دریں اثنا، ریئل اسٹیٹ شعبے سے ایف بی آر نے جائیداد کی خرید و فروخت پر لگنے والے ٹیکسز 236C اور 236K کے تحت مجموعی طور پر 235 ارب روپے اکٹھے کیے، جن میں سے 236C کے تحت 118 ارب روپے اور 236K کے تحت 117 ارب روپے وصول کیے گئے۔