پیر, جولائی 7, 2025
ہوممضامینایرانی حملے نے ویزمین انسٹیٹیوٹ کی برسوں کی اسرائیلی جنگی تحقیق تباہ...

ایرانی حملے نے ویزمین انسٹیٹیوٹ کی برسوں کی اسرائیلی جنگی تحقیق تباہ کر دی
ا


الميادین | سیاسیات

وسطی مقبوضہ فلسطین کے شہر رہوووت میں قائم ویزمین انسٹیٹیوٹ آف سائنس، جو طویل عرصے سے صہیونی قبضے کے سائنسی اور عسکری-صنعتی ڈھانچے کی بنیاد سمجھا جاتا ہے، حالیہ ایرانی میزائل حملے میں شدید نقصان سے دوچار ہوا ہے۔

اسرائیلی روزنامہ ’دی مارکر‘، جو ’ہارٹز گروپ‘ کے تحت شائع ہوتا ہے، کے مطابق انسٹیٹیوٹ کی کئی عمارتوں پر براہِ راست حملے ہوئے، جن میں ایک اہم لیبارٹری کمپلیکس مکمل طور پر آگ کی لپیٹ میں آ کر تباہ ہو گیا۔

یہ لیبارٹریز زندگی سے متعلق سائنسی تحقیق، مصنوعی ذہانت اور سالماتی حیاتیات (مولیکیولر بایولوجی) جیسے شعبوں میں سرگرم تھیں—وہی شعبے جنہوں نے اسرائیلی ریاست کو ایسے ہتھیاروں، نگرانی اور نشانہ بنانے والے نظام تیار کرنے میں مدد دی جو خطے بھر میں شہری آبادیوں پر حملوں میں استعمال کیے گئے ہیں۔

اسرائیلی میڈیا کی جانب سے ویزمین انسٹیٹیوٹ کو ’اسرائیل کا سائنسی و عسکری دماغ‘ قرار دیا جاتا رہا ہے۔ یہ ادارہ ان ٹیکنالوجیز کی تحقیق و ترقی میں مرکزی کردار ادا کرتا رہا ہے جو فضائی حملوں کے کوآرڈینیشن سسٹمز، ڈرون جنگی صلاحیتوں اور میدانِ جنگ میں استعمال ہونے والی طبی ٹیکنالوجی کو تقویت دیتی ہیں—یہ سب وہ شعبے ہیں جنہیں اسرائیل نے غزہ، لبنان، یمن اور حالیہ ایام میں خود ایران پر حملوں میں استعمال کیا۔

تباہ ہونے والی لیبارٹریز میں سے ایک پروفیسر ایلدد زاحور کی زیر نگرانی تھی، جو شعبہ سالماتی خلیاتی حیاتیات (Molecular Cell Biology) کے تجربہ کار سائنسدان ہیں۔ ایک اور معروف اسرائیلی سائنسدان، پروفیسر ایران سگال کی مصنوعی ذہانت کی لیبارٹری بھی حملے کی زد میں آئی، جس میں کروڑوں ڈالر مالیت کا ساز و سامان ناقابلِ مرمت نقصان سے دوچار ہو گیا۔ سگال کی لیبارٹری مبینہ طور پر ایسے الگورتھمز تیار کر رہی تھی جو جنگی فیصلوں اور حقیقی وقت میں نگرانی جیسے مقاصد میں استعمال ہو رہے تھے—ایسی ٹیکنالوجیز جنہیں اسرائیل نے غزہ سمیت دیگر مقامات پر حملوں کے لیے استعمال کیا۔

اسرائیلی میڈیا کی جانب سے جاری کردہ تصاویر میں جھلسے ہوئے کمروں، گر چکی لیبارٹری کی چھتوں، تباہ شدہ برقی نظام اور شدید ڈھانچہ جاتی نقصان کو دکھایا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ ایک ’درست نشانے‘ پر کیا گیا حملہ تھا۔

محض اتفاق نہیں، عسکری سائنس کی علامت پر ضرب

اگرچہ اسرائیلی حکام اس حملے کے مضمرات کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تاہم ’دی مارکر‘ نے تسلیم کیا ہے کہ یہ حملہ محض اتفاقی نہیں بلکہ ایک سوچا سمجھا اقدام تھا، جس کا ہدف ایک ایسا ادارہ تھا جو سائنسی تحقیق کے ذریعے عسکری طاقت کو تقویت دے رہا تھا۔

میڈیا رپورٹس میں اس حملے کو ایران کے ایٹمی سائنسدانوں کے قتل کا ’براہِ راست بدلہ‘ قرار دیا گیا ہے۔

ماہرین کے مطابق اس انسٹیٹیوٹ کے اسرائیلی سیکیورٹی ڈھانچے سے گہرے تعلقات ایران کی نظر میں اسے ایک ’جائز فوجی ہدف‘ بناتے ہیں، بالخصوص جب یہ ادارہ ایسی جدید ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی کی پشت پناہی کرتا رہا ہے جو شہری آبادیوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال ہوئی۔

اسرائیلی پروفیسر شارل فلائش مین، جن کی لیبارٹری اس حملے سے محفوظ رہی، نے تسلیم کیا کہ یہ نقصانات ناقابلِ تلافی ہیں۔ ان کا کہنا تھا:
"زندگی سے متعلق سائنس کی لیبارٹریاں اُن مواد پر انحصار کرتی ہیں جو برسوں کی محنت سے جمع اور محفوظ کیے جاتے ہیں۔ جب کوئی لیبارٹری تباہ ہو جائے، اور اُس کے ساتھ وہ تمام مواد بھی، تو اسے واپس لانا ممکن نہیں ہوتا۔”

ایک اور اسرائیلی محقق، پروفیسر اورن شولڈینر نے ’دی مارکر‘ کو بتایا:
"یہ ایسا ہے جیسے لیبارٹری ہوا میں تحلیل ہو گئی ہو۔”
ان کے مطابق متاثرہ لیبارٹریوں کو دوبارہ تعمیر کرنے اور اُن کی صلاحیتوں کو بحال کرنے میں کم از کم دو سال کا وقت درکار ہو گا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق، ویزمین انسٹیٹیوٹ کی تباہی تہران کی جانب سے ایک واضح پیغام ہے:
"اسرائیلی ریاست کے ادارے جو بیک وقت تحقیقاتی مراکز اور عسکری مددگار بنے ہوئے ہیں، اب بغیر کسی جوابدہی کے اپنا کردار جاری نہیں رکھ سکتے۔”

مقبول مضامین

مقبول مضامین