یوسف جعفر، گلزھان موسیٰ ایوا
غزہ میں جاری نسل کشی کی شدت نے فلسطینیوں کی آزادی کے لیے سرگرم ترین حامیوں کو بھی تھکا دیا ہے۔ عالمی طاقتوں کی بے حسی اور بے وفائی نے مسلمانوں میں مایوسی کو مزید گہرا کر دیا ہے، خاص طور پر جب عرب حکمرانوں کی غداری اور خاموشی مزید اذیت ناک معلوم ہو۔
تاہم عوام ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں نے—دیانتدار انسانوں کے ہمراہ—اسرائیلی مظالم کے خلاف احتجاج میں بھرپور شرکت کی ہے۔ لیکن کیا ان مظاہروں سے کوئی حقیقی تبدیلی آئی؟
شہری نافرمانی ہر قسم کی مزاحمت کے لیے اہم ہے، مگر تنہا یہ دیرپا تبدیلی نہیں لا سکتی۔ امریکہ میں، جو اسرائیل کی سب سے بڑی سرپرست اور مالی مدد فراہم کرنے والی طاقت ہے، اصل تبدیلی تب آتی ہے جب نظام میں عملی شمولیت اختیار کی جائے — خصوصاً لابنگ کے ذریعے۔
چونکہ امریکہ کی اسرائیل نوازی کئی دہائیوں کی شدید لابنگ کا نتیجہ ہے، فلسطین کے حق میں توازن پیدا کرنے کے لیے بھی ویسی ہی سیاسی حکمتِ عملی درکار ہے۔ آج جب عالمی رائے عامہ فیصلہ کن طور پر صہیونی ریاست کے خلاف ہو چکی ہے، تو وقت آ گیا ہے کہ صرف احتجاج سے آگے بڑھ کر ظلم کے مستقل خاتمے اور انصاف پر مبنی حل کے لیے منظم اقدامات کیے جائیں۔ اب وقت ہے کہ عام مسلمان کی طاقت — اس کی دولت، اس کا جذبہ اور مسجد اقصیٰ سے اس کی وابستگی — کو درست رخ دیا جائے۔
احتجاج کی طاقت اور اس کی حد
مظاہرے توجہ کا مرکز بنتے ہیں (اگرچہ مغرب میں غیر جانب دار میڈیا کی امید ہی فضول ہے)، مگر یہ شاذ ہی قانون سازی میں تبدیلی لاتے ہیں، کم از کم امریکہ میں۔ مثال کے طور پر، "آکیوپائی وال اسٹریٹ” اور "بلیک لائیوز میٹر” جیسی تحریکوں نے اگرچہ عوام کی توجہ حاصل کی، مگر خاطر خواہ سیاسی نتائج حاصل نہ ہو سکے۔
جدید تاریخ کے قابلِ ذکر امن احتجاج، جیسے ویت نام اور عراق کی جنگ کے خلاف مظاہرے، تعداد اور تسلسل کے لحاظ سے بڑے تھے۔ فروری 2003 میں عراق پر امریکی حملے کے خلاف دنیا بھر میں تقریباً ایک کروڑ افراد نے مظاہروں میں شرکت کی۔ اکتوبر 1969 میں "مورٹوریم ٹو اینڈ دی وار ان ویتنام” میں امریکہ بھر سے 20 لاکھ افراد شامل ہوئے۔ مگر ان میں ٹھوس حکمتِ عملی یا فالو اپ کا فقدان تھا، اور نتیجتاً پالیسی میں خاطر خواہ تبدیلی نہ آ سکی۔
ذرائع ابلاغ بھی ایسی سچائیوں سے نظریں چرا لیتے ہیں، خاص طور پر جب وہ ان کے بیانیے کے خلاف ہوں۔ ان تحریکوں میں وہ لابنگ قوت نہ تھی جو فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔ یہی معاملہ امریکی مسلمانوں کا ہے — ماضی میں بھی، اور آج بھی۔
امریکی مسلم تحریک: ثقافت، ایمان اور خوف
تقریباً بیس سال قبل امریکی دانشور فواز جرجس نے کہا تھا: "مسلمانوں کے پاس وہ سیاسی، ادارہ جاتی اور مالی وسائل نہیں جو امریکی سیاسی نظام میں تبدیلی لا سکیں۔” آج بھی یہی رکاوٹیں حائل ہیں۔
اگرچہ "ایسوسی ایشن آف عرب امریکن یونیورسٹی گریجویٹس” (AAUG) اور "امریکن-عرب اینٹی ڈسکریمنیشن کمیٹی” (ADC) جیسے ادارے طویل عرصے سے امریکی مسلم حقوق اور مشرقِ وسطیٰ — خصوصاً فلسطین — کے لیے سرگرم ہیں، مگر ان کی کوششیں زیادہ تر فرد کی سطح پر مرکوز رہی ہیں۔ جب بھی کسی سنجیدہ سیاسی اقدام کی کوشش کی گئی، انہیں پرتشدد دھمکیوں اور انتقامی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ (آج بھی فلسطین کے حق میں سرگرمیوں کو دبانے کی مہم جاری ہے۔)
اگرچہ چند تنظیمیں جیسے "امریکن مسلمز فار فلسطین” (AMP) اور "یو ایس کیمپین فار فلسطینین رائٹس” (USCPR) لابنگ بازو بھی رکھتی ہیں، مگر یہ بہت محدود اور کمزور ہیں۔ ان کی توجہ زیادہ تر افراد کی تربیت اور ’’ایکشن الرٹس‘‘ پر ہے۔ نتیجتاً مسلم عوام اگرچہ پہلے سے زیادہ آواز اٹھا رہے ہیں، مگر ان کا اثر منتشر ہے اور کسی منظم لابنگ قوت کا نعم البدل نہیں۔
پھر امریکہ کے مسلمان خود بھی ایک متنوع اقلیت ہیں، اپنے فرقہ وارانہ اور نسلی تنوع کے باعث دفاعی رویے کا شکار۔ اکثر معاشی مسائل میں الجھے ہوئے، وہ سیاسی یا مالی سطح پر متحرک ہونے سے قاصر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی مسلم امت کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا — عددی طاقت اور سرمائے کے ذریعے — تاکہ صرف جذباتی ردعمل کی بجائے حکمتِ عملی سے کام لیا جا سکے۔
جب احتجاج نتائج لاتا ہے — تب جب نظام ساتھ دے
امریکہ میں مزاحمت کی ایک بڑی کامیاب مثال شہری حقوق کی تحریک (Civil Rights Movement) ہے۔ اس تحریک کی کامیابی کی بنیاد ایک منظم حکمتِ عملی اور قانونی لابنگ تھی جس نے احتجاج کو قانون سازی میں ڈھال دیا۔
سول رائٹس ایکٹ 1964 اور ووٹنگ رائٹس ایکٹ 1965 اسی حکمتِ عملی کا نتیجہ تھے۔ ستر سے زائد لبرل اور مزدور تنظیموں نے لابنگ کی منظم کوششوں کی پشت پناہی کی، جس سے سڑکوں پر احتجاج کانگریس پر دباؤ میں تبدیل ہوا۔
سبق یہ ہے کہ احتجاج شعلہ بھڑکانے کا ذریعہ ہو سکتا ہے، مگر اصل انجن عدالتی، سیاسی اور معاشی ڈھانچہ ہوتا ہے — اس کے بغیر وہ شعلہ بجھ جاتا ہے۔
لابنگ کیوں مؤثر ہے؟
لابنگ ایک منظم، پیشہ ورانہ اور مستقل عمل ہے۔ لابیسٹ مکمل وقت قانون سازوں سے تعلقات بنانے، انہیں مسئلے کی تفصیلات سمجھانے اور مسلسل رابطے رکھنے پر صرف کرتے ہیں۔ متنازعہ مسائل — جیسے صہیونیت — پر حمایت عموماً خریدی جاتی ہے۔
کارپوریٹ کمپنیاں اور صنعتیں سالانہ اربوں ڈالر لابنگ پر خرچ کرتی ہیں اور بدلے میں پالیسی پر اثر ڈالتی ہیں۔ صرف 2024 میں، امریکہ میں لابنگ پر 4.5 ارب ڈالر خرچ کیے گئے — جس کے نتائج قانون سازی میں واضح دیکھے گئے۔
غیر ملکی امور میں امریکی شمولیت کے حوالے سے سب سے مؤثر مثال AIPAC (امریکن اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی) کی ہے — جو امریکی حکومت کی اندھی اسرائیل نوازی کی اصل بنیاد ہے۔
AIPAC کی کامیابی کا راز اس کے تین ستونوں میں ہے: منظم رکنیت، علاقائی موجودگی، اور مضبوط مالیاتی ڈھانچہ۔ یہ ارکانِ کانگریس سے مسلسل رابطے رکھ کر انہیں اپنی کہانی سکھاتی ہے اور پھر مالی تعاون کے ذریعے تعلقات کو مضبوط کرتی ہے۔
AIPAC کے دو PACs (سیاسی عمل کی کمیٹیاں) ہر انتخابی دور میں کروڑوں ڈالر امیدواروں کو عطیہ کرتی ہیں۔ پچھلے انتخابی مرحلے میں 127 ملین ڈالر خرچ کیے گئے، جن میں سے 55 ملین براہِ راست عطیات تھے۔ 2024 میں، صرف ترقی پسند ارکان کو قابو میں لانے کے لیے 100 ملین ڈالر مختص کیے گئے۔
اب موازنہ کریں مسلم امت کی مالی صلاحیت سے۔ ہم خود کو سب سے زیادہ فیاض برادری کہتے ہیں۔ "لانچ گُڈ” نے صرف ایک سال (اکتوبر 2023 تا اکتوبر 2024) میں غزہ کے لیے 100 ملین ڈالر جمع کیے — اور وہ بھی صرف ایک پلیٹ فارم پر۔ یہ ثبوت کافی ہے کہ اگر مسلمان متحد اور متحرک ہو جائیں، تو وہ AIPAC کی مالی طاقت کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔
مسلم دنیا کے لیے سبق
"مسلم لابی” اگر وجود میں آئے تو وہ AIPAC کے ماڈل کو اپناتے ہوئے فلسطین کے لیے مؤثر کام کر سکتی ہے — خاص طور پر موجودہ حالات میں جب اسرائیل کے خلاف رائے عامہ اور بین الاقوامی ماحول بدل چکا ہے۔
ایک مؤثر لابی کے لیے چار بنیادی عناصر درکار ہیں: متحد قیادت، مالی وسائل، سیاسی شرکت، اور مؤثر نیٹ ورک۔ مقصد ہونا چاہیے: فلسطینی آزادی، جسے انسانی حقوق، بین الاقوامی قانون، اور امریکی اقدار کے فریم میں پیش کیا جائے۔
فی الحال موجودہ ماڈل احتجاج کی شدت تو رکھتا ہے مگر سیاسی ڈھانچے سے خالی ہے۔ اصل کمی پالیسی پر اثر انداز ہونے والے اداروں کی ہے۔ ایسے ادارے درکار ہیں جو قانون سازی پر اثر ڈالنے کے لیے مالی طور پر مستحکم ہوں، پیشہ ور افراد پر مشتمل ہوں، اور کیپیٹل ہِل پر لابنگ کر سکیں۔
یہ محض امریکی مسلمانوں کے لیے نہیں، پوری مسلم دنیا کے لیے پکار ہے: آئیں ہم سب متحد ہوں، اپنی تقسیم ختم کریں، اور فلسطین کے لیے ایک مؤثر لابی کھڑی کریں۔ نئے اتحاد جیسے "Reject AIPAC” اس سمت میں قدم بڑھا رہے ہیں، ہمیں ان کی مالی مدد کرنی چاہیے، اور قانونی معاونت، میڈیا حکمتِ عملی اور تربیتی اقدامات کے ذریعے ان کی پشت پناہی بھی۔
اگر صرف ایک مقصد مسلمانوں کو متحد کر سکتا ہے، تو وہ مسجد اقصیٰ ہونا چاہیے۔ آئیں، ہم سب مل کر فلسطین کے لیے ایک مؤثر اور متحد لابی امریکہ کے اندر — اسرائیلی لابی کے مرکز میں — قائم کریں۔